موجودہ جغرافیائی و سیاسی صورتحال ، ہائبرڈ تنازعات اور پاکستان

IPS-seminar-on-Hybrid-Conflict--thumb

موجودہ جغرافیائی و سیاسی صورتحال ، ہائبرڈ تنازعات اور پاکستان

 پاکستان کو درپیش ہائبرڈ طرز کے جنگی خطرات کا سامنا کرنے کے لیے کثیر جہتی حکمتِ عملی کی اشد ضرورت ہے: سابق سفیر منیر اکرم

IPS-seminar-on-Hybrid-Conflict

پاکستان کو چاروں اطراف سے ہائبرڈ طرزکے مختلف خطرات درپیش ہیں جن کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے جنگی قابلیت کے ساتھ ساتھ کثیر جہتی حکمتِ عملی ترتیب دینے اور دیگر شعبہ جات میں بھی استطاعت کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

ان خیالات کا اظہار پاکستان کے سابق سفیرمنیر اکرم نے 29 نومبر 2018 کو انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے زیرِ اہتمام "موجودہ جغرافیائی و سیاسی صورتحال ، ہائبرڈ تنازعات اور پاکستان” کے عنوان سے ہونے والے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ خیال رہے کہ ایمبیسیڈر [ر] منیر اکرم اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل رکن کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس وقت چاروں اطراف سے ہائیبرڈ خطرات کا سامنا ہے جس کی مختلف شکلوں کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عوام میں مایوسی پھیلانا، دہشت گردی، اقتصادی و سیاسی دباؤ ،گمراہ کن افواہوں کو ہوا دینا اور جنگ کے لئے میدان کی تیار ی ہائبرڈ جنگ کے ہتھیار ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ  پاکستان کے خلاف پہلی ہائبرڈ جنگ 1971ء میں لڑی گئی جب مشرقی پاکستان ہم سے علیٰحدہ ہوا۔

سابق سفیر کا کہنا تھا کہ اج کی ہائبرڈ جنگ کے ذریعے جن نشانوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے ان میں پاکستان  کے ایٹمی پروگرام  کے بارے میں غلط فہمیاں پید اکی جا رہی ہیں جبکہ دوسری طرف امریکہ اور بھارت نے ایٹمی تعاون کا معاہدہ کیا ہوا ہے۔ دوسرا تنازعہ طالبان کی کاروائیاں ہیں، طالبان کے محفوظ ٹھکانے  افغانستان میں ہیں لیکن  طالبان کی کاررائیوں کے لئے ہم جوابدہ ٹہرائے جاتے ہیں ۔ ایک اور معاملہ مسئلہ کشمیر بھی ہے جس میں مشرف واجپائی  معاہدہ  ۲۰۰۴ء کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف تھا جس میں  ہم نے یہ مان لیا کہ پاکستان کی سر زمین کو بھارت میں دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں کیا جائے گا اور اس میں کشمیریوں کی جدو جہد کو بھی شامل کیا جس کے سبب ہم کشمیریوں کیلئے  کسی بھی بین الاقوامی فورم پر آواز اٹھانے کے قابل نہیں رہے، اور کشمیروں کی جدو جہد آزادی کو بھی دہشت گردی کے درجے میں شمار کر لیا گیا ہے۔ جبکہ جواباً ہم نے بھارت سے یہ بھی نہیں منوایا کہ وہ پاکستان اور کشمیریوں کے خلاف دہشت گردی نہیں کرے گا۔

منیر اکرم نےکہا کہ سی پیک پر قومی اتفاق موجود ہے ہمیں متحد ہو کر سی پیک کا دفاع کرنا ہے، لیکن بھارت اور امریکہ سی پیک کے خلاف مخاصمانہ کاروائی میں مصروف ہیں، ہمیں اس کے دفاع کیلئے تیار رہنا ہے کیونکہ اسکے خلاف بھی ہائبرڈ حربے استعمال کیے جا رہے ہین جبکہ ہماری فتح دفاع میں پوشیدہ ہے۔ ہائبرڈ جنگ میں اپنی کمزوریوں کا ذکر کرتے ہوئے  انہوں نے کہا کہ بلوچستان ہائبرڈ تنازعات کا ایک اہم حصہ ہے ، بھارت بلوچی باغیوں کو ٹی وی پر پیش کرتا ہے ۔ جنیوا میں بسوں پر بلوچستان کی آزادی کے اشتہار لگے لیکن ہم وہ صلاحیت نہیں رکھتے کہ ان کو روک سکیں۔ 

عالمی منظر نامہ کے حوالےسے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی تباہ کن پالیسیوں سے دنیا میں بین الاقوامی تعلقات کا جو ڈھانچہ دوسری عالمی جنگ کے بعد  کھڑا کیا گیا تھا جس میں اقوام متحدہ ورلڈ بنک ، ڈبلیو ٹی او وغیرہ شامل ہیں، وہ اب  ٹوٹ رہا ہے۔

ایٹمی جنگ کے حوالے سے دنیا میں حساس مقامات کی نشان دہی کرتے ہوئے منیر اکرم نے کہا کہ شمالی  کوریا اور امریکہ کا تنازعہ، ایران امریکہ چپقلش،جنوبی ایشیاء میں پاک بھارت تنازعات ،یورپ میں روس نیٹو کاروائیاں  اور جنوبی  چین کے سمند رمیں تائیوان  تحریک آزادی میں امریکہ چین تنازعات اہم ہیں۔ امریکہ اور بھارت چین کی بحر ہند اور جنوبی چین کے سمندروں میں اختیارات کو قبول نہیں کر رہے ہیں جس سے خطرات  میں اضافہ ہو رہا ہے ۔

بعد ازاں شرکاء  مجلس نے موضوع کے حوالے سے گفتگو میں حصہ لیا اور جناب منیر اکرم نے حاضر ین کے سوالوں کے جواب دئیے۔ آج کے لیکچر میں اسلام آباد میں موجود سابق سفیروں ، سابق سرکاری افسران، یونیورسٹی کے اساتذہ ، طلبہ و طالبات ، ذرائع ابلاغ کے نمائندوں، غیر ملکی سفارت خانو ں کے نمائندوں اور ممتاز شہریوں نے شرکت کی۔ قبل ازیں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے ایگزیکٹو پریزیڈینٹ  خالد رحمٰن نے تقریب  کے مہمان اور شرکاء  کو خوش آمدید کہا اور لیکچر کے انعقاد کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔جبکہ ڈاکٹر عدنان سرور ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز نمل یونیورسٹی نے موڈریٹر کےفرائض  انجام دئیے۔

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے