معروف صحافی اور سماجی کارکن عارف الحق عارف کے ساتھ ایک شام

معروف صحافی اور سماجی کارکن عارف الحق عارف کے ساتھ ایک شام

صحافیوں کی جانب سے متعصب اور جانبدارانہ رویہ پیشے کو نقصان پہنچا رہا ہے، معاشرے میں عدم استحکام پیدا کر رہاہے۔

پاکستان میں صحافت کا معیار بتدریج گرتا جا رہا ہے کیونکہ بہت سے صحافی ایسے متعصب فریق بن چکے ہیں جوایک طرف کی سنتے اور بات کرتے ہیں، اور مسخ شدہ انداز میں بیانیہ تیار کر کے رپورٹنگ کرتے ہیں۔ اس طرح وہ نہ صرف صحافت کی بنیادی زمہ داری یعنی سچائی کو فروغ دینے میں ناکام ہو رہے ہیں ، بلکہ معاشرے میں عدم استحکام اور انتشار پیدا کرنے کا باعث بھی بن رہے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار معروف صحافی اور سماجی کارکن عارف الحق عارف نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اسلام آباد میں 23 نومبر 2022 کومنعقدہ ایک سیشن کے دوران کیا۔اس گفتگو میں چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن، آزاد جموں کشمیر کےسابق سیکریٹری سلیم بسمل، گیلپ پاکستان کے بانی ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی، معروف صحافی اور کالم نگار رؤف کلاسرا اور دیگر ممتاز صحافیوں نے بھی شرکت کی۔

پاکستان میں صحافت کی موجودہ صورت حال پر اپنے مشاہدات پیش کرتے ہوئے عارف نے کہا کہ بڑھتی ہوِئی پولرائزیشن، الزام تراشی، جھوٹے بیانیے کی تعمیر، اور مخالفین کو دھمکیاں دینے سے ملک اور اس کے معاشرے پر نمایاں منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ صحافت کے سیاست اور اس کے نتیجے میں پورے معاشرے پراثرانداز ہونے کی وجہ سے ایک صحافی کو جانبدار اور متعصب ہو کر کام نہیں کرنا چاہئے ۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ میڈیا والوں کو آزادی سے پہلے کے صحافیوں جیسے ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر، عبدالمجید سالک، چراغ حسن حسرت، اور غلام رسول مہر سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے، جو بیک وقت لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے مصنف اور مورِّخ بھی تھے جو ایک طرف لوگوں کو متحد کررہے تھے ، جبکہ دوسری طرف ان کی بہتر ی کے لیے رائے عامہ کی تشکیل بھی کر رہے تھے۔

اسپیکر نے ملک کی ترقی، نمو اور استحکام کے لیے آزاد اداروں کی تعمیر اور مضبوطی کو بھی ناگزیر قرار دیا۔ ان کی راِئَے میں اس مقصد کے حصول کے لیے سیاست دانوں اور پالیسی سازوں کو مضبوط، مخلص اور ایماندار ہونے کے ساتھ اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے مفادات کے لیے اداروں کی سیاست نہ کریں۔ دوسری طرف، صحافیوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ میڈیا کو ریاست کے ایک موثر ستون کے طور پر برقرار رکھنے کے لیے معروضیت کو برقرار رکھیں۔

اپریل 1967 میں شروع ہونے والے اپنے پیشہ ورانہ کیرئیر کے سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے عارف نے حاضرین کو آگاہ کیا کہ انہوں نے نہ صرف اہم قومی اور بین الاقوامی واقعات کی کوریج کی بلکہ بیوروکریٹ الطاف گوہر، چودھری ظہور الٰہی، نواب اکبر بگٹی کی قید سمیت اعلیٰ سطح کے کئ سیاسی مقدمات کی بھی رپورٹنگ کی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جنگ گروپ کے ساتھ اپنی طویل اننگز کے دوران انہوں نے ممتاز شخصیات، سماجی کارکنوں، علمائے کرام اور سیاستدانوں سے قریبی شناسائی پیدا کی جن میں پیر پگاڑو، سید محمد تقی، محمد خان جونیجو، عبدالستار افغانی، وارث میر، پروفیسر غلام اعظم وغیرہ شامل ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عارف ایک تجربہ کار صحافی اور سماجی کارکن ہیں جن کا 50 سال سے زیادہ کا تجربہ ہے۔ انہوں نے جنگ گروپ آف نیوز پیپرز کے ساتھ کورٹ رپورٹر، پولیٹیکل رپورٹر اور سفارتی نمائندے کے طور پر کام کیا ہے۔ جیو ٹی وی کے ڈائریکٹر کے طور پر تعینات ہونے سے پہلے، انہوں نے جیو ٹی وی نیٹ ورک کے لیے مختلف اسائنمنٹس کے تحت کام کیا تھا جس میں بطورسنسر بورڈ کے سربراہ بھی شامل تھا، جہاں انہوں نے سنسر پالیسی تیار کی، اسےکوڈفائیڈ کیا اور اس پر عمل درآمد بھی کروایا۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے