فاطمہ جناح وومین یونیورسٹی کے شعبہِ قانون کی طالبات کو تحقیق اور عملی قانونی میدان کے بیچ موجود خلاء پر رہنمائ

فاطمہ جناح وومین یونیورسٹی کے شعبہِ قانون کی طالبات کو تحقیق اور عملی قانونی میدان کے بیچ موجود خلاء پر رہنمائ

کسی بھی تحقیقی عمل کا بنیادی مقصد معاشرے کی ترقی اور مثبت سماجی تبدیلی کو فروغ دینا ہونا چاہیے، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ تحقیقی کلچر کو اجتماعی قومی ذہنیت کے اٹوٹ پہلو کے طور پر اجاگر کیا جائے۔

اس بات کا مشاہدہ آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن نے 30 نومبر 2023 کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئ پی ایس) اسلام آباد میں منعقدہ فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی (ایف جے ڈبلیو یو) راولپنڈی کے شعبہِ قانون کی طالبات کے ساتھ ایک انٹرایکٹو سیشن کے دوران کیا۔

آئ پی ایس لیڈ ، یعنی آئ پی ایس کے لرننگ، ایکسی لینس اور ڈیولپمنٹ پروگرام  کے تحت منعقدہ اس ‘برین اسٹارمنگ ریسرچ آئیڈیاز ‘سیشن کا مقصد قانون کے محققین کو قانونی علوم کے سینئر ماہرین اور پریکٹیشنرز کے ساتھ اپنے تحقیقی شعبوں پر غور و فکر کرنے کا موقع فراہم کرنا تھا۔

فاطمہ جناح وومین یونیورسٹی کے شعبہِ قانون کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نادیہ خدام کی سربراہی میں دورہ کرنے والے  یونیورسٹی کے اس وفد میں ایل ایل بی پروگرام کی آخری سال کی طالبات شامل تھیں جو اپنی تحقیقی پروپوزلز پر کام کر رہی تھیں۔ اس نشست سے چیرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن اور آئ پی ایس میں تحقیق اور تعلیمی آؤٹ ریچ کے مشیر ڈاکٹر فخر الاسلام نے خطاب کیا۔

خالد رحمٰن نے طلباء سے بات چیت کرتے ہوِئے اس بات پر روشنی ڈالی کہ تحقیقی عمل کا آخری ہدف معاشرے کی بہتری ہونا چاہیے۔ انہوں نے مثبت سماجی تبدیلی کے لیے اثر انداز ہونے اور قوم کے لیے تعمیری کردار ادا کرنے میں تحقیق کی اہمیت  پر زور دیا۔ انہوں نے قومی ذہنیت کے ایک لازمی پہلو کے طور پر تحقیق کے کلچر کو فروغ دینے کی اہمیت پر بھی اصرار کیا۔

ڈاکٹر نادیہ خدام نے علمی تحقیق اور عملی قانون سازی کے درمیان تعلق کی کمی کو اجاگر کیا، اور تحقیقی پالیسی کے انٹرفیس کی ضرورت پر زور دیا۔

قبل ازیں ڈاکٹر فخر الاسلام نے حاضرین میں آئ پی ایس کا برین سٹارمنگ ریسرچ آئیڈیاز پروگرام متعارف کرایا جس کا مقصد شرکاء اور اسٹیک ہولڈرز کو پاکستان میں تیار کی جانے والی تحقیق میں مقامی بیانیے اور  مقامی حل کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحقیق مہارت کی اصلاح کا ایک عمل ہے اور علمی معیشت کے اس دور میں اسے انسانی ترقی کے قومی ایجنڈے کا حصہ سمجھا جانا چاہیے۔

اس سیشن کے بعد آئینی قانون، ماحولیاتی قانون، فوجداری قانون، اور متبادل تنازعات کے حل اے آر ڈی ( آلٹرنیٹیو ڈسپیوٹ ریزولوشن) پر الگ الگ گروپ بحث ہوئی۔ معزز قانونی ماہرین اور پریکٹیشنرز، بشمول آئ پی ایس کے سینئیر ریسرچ فیلو پروفیسر شہزاد اقبال شام، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ امیر عبداللہ، اور ایک پریکٹسنگ وکیل اور منطق سینٹر فار ریسرچ کے سینئر ریسرچ فیلو سید عبداللہ انور طلباء کے ساتھ گفتگو کرتے رہے۔ ان گروپ ڈسکشنز نے طلباء کو قانون اور قانونی پریکٹس کے عملی میدان میں موجود تحقیقی خلاء کی کلیدی جہتوں کو اجاگر کرتے ہوئے اپنے تحقیقی شعبوں میں ذہن سازی میں مدد فراہم کی۔

آئینی اور ماحولیاتی قانون کے لیے پروفیسر شہزاد اقبال شام نے آئین کے بنیادی فریم ورک کے بارے میں بصیرت فراہم کی اور تحقیق کے طریقہ کار، اخلاقیات، اور قانونی تحقیق میں بنیادی ڈیٹا کے ذرائع کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے طلباء کی سپریم جوڈیشل کونسل اور پاکستان کے آئین کے دائرہ کار میں ماحولیاتی انصاف جیسے ان مخصوص شعبوں کی طرف رہنمائی کی جن پر تحقیق کی جانی چاہیے۔

ایڈوکیٹ امیر عبداللہ نے متعلقہ تحقیقی شعبوں میں جدید آلات کی مطابقت کو اجاگر کرتے ہوئے فوجداری قانون کے عصری پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی۔ اسی طرح آلٹرنیٹیو ڈسپیوٹ ریزولوشن کے میدان میں عبداللہ انور نے متعلقہ تحقیقی راستوں پر روشنی ڈالی، جیسے کہ ناقابلِ ادراک مسائل کے لیے اسلامی ثالثی کا تصور، میڈی ایشنن-آربیٹریشن (میڈ – آرب)، اور پاکستان کے قانونی منظر نامے میں آلٹرنیٹیو ڈسپیوٹ ریزولوشن کو سہولت فراہم کرنے میں نچلی عدلیہ کا کردار، وغیرہ۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے