‘انڈیا کا ماضی، حال اور مستقبل – مسلم دنیا کی نظر میں(1)’

‘انڈیا کا ماضی، حال اور مستقبل – مسلم دنیا کی نظر میں(1)’

مسلم دنیا نے اقلیتوں کے خلاف بھارت کی ہندوتوا زدہ نفرت پر آواز اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ آئ پی ایس ویبینار

 پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا ہے کہ مسلم دنیا کو مغربی دنیا پر انحصار چھوڑ کر کشمیر اور فلسطین جیسے مسائل پر یکجا ہو جانا چاہیے تاکہ وہ ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آ سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب سوشل میڈیا اور دیگر ابلاغ پر انڈیا میں اقلیتوں  بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک اور مسئلہ کشمیر پر عرب دنیا کیطرف سے بھی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئ ہیں۔

 ان خیالات کا اظہار انہوں نے ‘انڈیا کا ماضی، حال اور مستقبل – مسلم دنیا کی نظر میں’ کے عنوان سے ہونے والے ایک بین الاقوامی ویبینار میں کیا جس کا انعقاد 23 جون 2020 کو انسٹٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز [آئ پی ایس] نے کیا تھا۔اس تقریب سے خطاب کرنے والوں میں برطانیہ سے لارڈ نذیر احمد، ممبر ہاوّس آف لارڈز، برطانیہ کی پارلیمنٹ کے رکن خالد محمود، ترکی کے وزیرِ اعظم کے مشاورتی بورڈ برائے انسانی حقوق ڈاکٹر حامت ارسوئے، مصر کی قومی آئینی کمیٹی کے نائب صدر ڈاکٹر کمال ہلباوی، ترکی کی استنبول یونیورسٹی سے ڈاکٹر حلیل ٹوکر، اور قطر یونیورسٹی سے ڈاکٹر فرحان مجاہد چک جیسے بین الاقوامی مقررین شامل تھے۔ اس آن لائن ویبینار کی صدارت انسٹیٹیوٹ کے ایگزیگٹیو صدر خالد رحمٰن نے کی جبکہ ناظم کے فرائض ادارے کے سینئیر ریسرچ فیلو سید محمد علی نے انجام دیے۔

لارڈ نذیر احمد کا کہنا تھا کہ بھارت اب ایک سیکولر ملک نہیں رہا ہے کیونکہ اب اسکا سیاسی نظام ہندوتوا نظریے کے ایسے پیروکار چلا رہے ہیں جو اقلیتوں کو برابر مواقع دینے کے حق میں نہیں۔ انہوں نے عرب ممالک کو بھارت کی اس سیکولر جمہوریت کے لبادے میں چھُپی شدّت پسندی کو سمجھنا شروع کرنے دینے پر سراہا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت اپنی خفیہ ایجنسی راء کو پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔برطانیہ کی پارلیمنٹ کے رکن خالد محمود نے کشمیریوں کو اپنے اختلافات بھُلا کر مل جل کر اپنے تمام وسائل بروئے کار لانے کا مشورہ دیا تاکہ عالمی قوتوں پر دباوَ بڑھایا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت سرِ عام جنیوا کنونشن کی دھجیاں اڑا رہا ہے اور اس کے لیے مسلم ممالک کو اس معاملے کو بین الاقوامی فوجداری عدالت میں لے کر جانا چاہیے۔ انہوں نے اسلامی تعاون کی تنظیم [او آئ سی] سے بھی مسلمانوں اور کشمیریوں پر ظلم ڈھانے کی وجہ سے بھارت پر اقتصادیپابندیاں لگانے پر غور کرنے کا مشورہ دیا۔

ترکی کے پروفیسر حامت ارسوئے کا کہنا تھا کی بھارت ، امریکہ اور اسرائیل مل کر مسلمانوں کے خلاف کام کر رہے ہیں اور جان بوجھ کر مسلمانوں کی آزادی کی تحریکوں کو دہشت گردی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کی اس حرکت کا مقصد اپنے قبضے اور مظالم کا جواز پیش کرنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو مغرب کی طرف دیکھنے کے بجائے مدینہ کی ریاست ، قران پاک اور سیرتِ نبوی کو  ایک ماڈل کے طور پر دیکھناچاہیے تاکہ ان کی بنیاد پر ایک پر امن سیاسی نظام قائم کیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں بی جے پی کی سیاست نفرت کے ستونوں پر کھڑی ہے جس کا ایک ثبوت ا س کا 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے بل پر طاقت میں آنا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں نفرت کی وجہ سے کیے جانے والے مظالم کا 76 فی صد شکار مسلمان ہی ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر فرحان مجاہد چک نے کہا کہ مسلمانوں کو اپنے مسائل کا حل خود تلاش کرنے کی کوش کرنی چاہیے۔

ڈاکٹر کمال ہلباوی نےکہا کہ بھارت مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر اپنے مظالم کو چھپانا جاہتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لیے مل کر جدو جہد کرنی چاہیے۔

ڈاکٹر حلیل ٹوکر نے کہا کہ بی جےپی کی نظریاتی اساس آر ایس ایس میں ہے جس کی بنیاد ہٹلر کی طرح دوسرے مذاہب سےنفرت کرنے میں ہے۔ انہوں نے یاد کروایا کہ مودی ہی 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کےقتلِ عام کا ذمہ دار تھا۔ ان کا کہنا تھا کی بی جے پی اور آر ایس ایس 2021 تاک اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کو ملک سے نکال دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نےیہ بھی کہا کہ عورتوں کی بے حرمتی اور قران پاک کو جلانا ایسے اقدامات ہیں جن کی ساری دنیا  بالخصوص اسلامی ممالک کو مذمّت کرنی چاہیے اور یقینی بنانا چاہیے کہ ایسی حرکت دوبارہ نہ دہرائ جائے۔

خالد رحمٰن نے اپنےاختتامی کلمات میں کہا کہ بھارت ہمیشہ سے اپنی موجودہ شکل میں  نہیں تھا بلکہ 1947سے پہلے 60 فی صد علاقہ صوبوں اور باقی 40 فی صد متفرق ریاستوں پر مشتمل تھا جس پر برطانیہ کی حکومت تھی۔ انہوں نے یہ بھی یاد دہانی کرائ کہ برطانیہ نے ہی اس علاقے میں تقسیم کر کے حکومت کرنے کا طریقہ کار اپنایا تھا جبکہ اس سے پہلے یہاں صدیوں سے مسلمانوں کے دورِ حکومت میں ایک پر امن، مستحکم اور پائیدار نظام رائج تھا۔ انہوں نے کہا کہ انگریزوں کے  آنے سے پہلے مسلمانوں نےاس علاقے میں معیشت، تہزیب، ثقافت، اور ایسے کئ دیگر میدانوں میں بہت کام کیا تھا جس کی وجہ ان کی اچھی گورننس تھی۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو اب بھی دوسری طاقتوں کا سہارا ڈھونڈنے کے بجائے اپنے مسائل خود حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اگہی، تعلیم، معلومات اور فعال پیروکاری کے ذریعے  نہ صرف دنیا کے ساتھ مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے کام کرنا اہیے بلکہ آپس میں اتحاد اور یگانگت کے ساتھ مسلم ممالک کو درپیش مسائل کے حل کرنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے