‘اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی حالتِ زار’

‘اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی حالتِ زار’

اسرئیل کو تسلیم کرنے کی گردانغزہ کے ملبے تلے   دفن  ہو گئی ہے : بین الاقوامی ویبنار

 IPS PR 21052011

اسرئیل کو تسلیم کرنے کی گردان غزہ کے ملبے تلے   دفن  ہو گئی ہے : بین الاقوامی ویبنار

ورلڈ آرڈر میں تبدیلی اسرائیل جیسی ریاستوں کو لگام ڈالنے اور فلسطین کے دیرینہ مسئلے کوحل کرنے کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ موجودہ دور کاغیر منصفانہ ورلڈ آرڈر ہی دنیا میں عدم استحکام کا سبب ہے جس کی بنیاد ہی سب سے زیادہ طاقت ور کی بقا کا اصول ہے۔ اس کے علاوہ ، دنیا بھر میں سول سوسائٹی کے رابطے، پوری دنیا میں نیک مقاصد کے لیے کام کرنے والی قوتوں کا  اتحاد  اور جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف تحریک کا ماڈل بھی اس سلسلے میں مرکزی کردار ادا کرسکتا ہے۔

 ان خیالات کا اظہار نامور جیو پولیٹیکل تجزیہ کاروں نے19 مئ  2021 کو  ‘اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی حالتِ زار’  کے عنوان سےمنعقد ہونے والے ایک بین الاقوامی ویبنار میں کیا  جس کا اہتمام انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز  [آئ پی ایس]، اسلام آباد اوراستنبول کی  آئ ایل کے ای فاؤنڈیشن   نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ 

مقررین میں پاکستانی سینیٹر اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امورکے چیئرمین مشاہد حسین سید، آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن ، امریکا میں مقیم فلسطینی مصنف اور صحافی  ڈاکٹر رمزی بارود اور ترکی میں مقیم فلسطینی صحافی  ڈاکٹر علی ابورازیق شامل تھے۔ اس تقریب میں سہولت کار کے فرائض  استنبول سے آئ ایل کے ای فاؤنڈیشن کے احسن شفیق نے ادا کیے۔

  ویبنارمیں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی کہ  پاکستان فلسطین اور کشمیر کے مابین بے انتہا  مماثلت  دیکھتا ہے۔ دونوں مقبوضہ علاقے ہیں، دونوں کو حق خودارادیت دینے سےانکار کیا گیا ہے ، دونوں – اسرائیل میں بنیامن نیتن یاہو اور ہندوستان میں نریندرا مودی –  کی فاشسٹ حکومتوں کے قبضے میں ہیں جو نسل پرستانہ بھی ہیں  اور اسلامو فوبیا کا شکار بھی ۔ اس کے علاوہ دونوں مقبوضہ علاقوں میں اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چونکہ اس سمت اسلام آباد کی پالیسی بالکل واضح ہے کہ اگر پاکستان فلسطین کے بارے میں اپنی پوزیشن کمزور کرتا ہے تو وہ کشمیر کے بارے میں بھی اپنی پوزیشن کو نقصان پہنچائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی گردان غزہ کے ملبے کی گہرائیوں میں دفن  ہو گئی ہے۔

مقررین نے کہا کہ اسرائیل  جیسی فرقہ وارانہ ریاست کے ساتھ تعلقات کو معمول  پر لانے سے مسلمان ممالک  کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس کے بجائے زیادہ بہتر ہوگا کہ مسلم ممالک امریکہ پر سفارتی دباؤ بڑھائیں جس کی رائے کو اسرائیل زیادہ اہمیت دیتا ہے۔

 ماہرین پُرامید تھے کہ دنیا کا سرد جنگ کے بعد  یک قطب سے کثیر الجہتی قطب میںتبدیل ہو جانا فلسطینی مقاصد کو فائدہ پہنچائے گا۔انہوں نے ایک مثبت پہلو کی طرف اشارہ کیا کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں اور اسرائیل کے اپنے اندر، پھر لبرلز اور سول سوسائٹی کی طرف سے فلسطینیوں کے حق میں آوازیں سنی جا رہی ہیں  اور وہ اپنے تحفظات کا اظہار میڈیا اور انسانی حقوق کے اداروں  کے پلیٹ فارموں سے کر رہے ہیں ۔

مبصرین نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اسرائیل نے یہ سوچ کر تازہ ترین جارحیت کا آغاز کیا کہ فلسطینیوں کو الگ تھلگ کردیا گیا ہے کیونکہ بہت سے ممالک تعلقات کو معمول پرلارہے ہیں اور وہ عالمی یکجہتی کھو رہے ہیں۔ لیکن اس تشدد نے سول سوسائٹی میں ایک بڑی عالمی تحریک کو جنم دیا ہے۔ فلسطین کی حمایت میں ہونے والےمظاہروں میں شرکاء کو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ تمام نسلی گروہوں اور مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ لوگ ناراض ہیں اور وہ بجا طور پر اسرائیل کو ایک نسل پرست  متعصب ریاست قرار دے رہے ہیں ، جسے مقررین نے تاریخ کا ایک فیصلہ کن لمحہ قرار دیا۔ امریکی کانگریس ، برطانیہ کی پارلیمنٹ اور یورپی پارلیمنٹ میں بھی فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی آوازیں سنی جارہی ہیں ، جو عالمی رائے میں تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اس کا ثبوت لندن ، میڈرڈ اور پیرس میں ہونے والے بہت بڑے احتجاجی مظاہروں سےبھی ہوتا ہے۔ 

مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کو اس عالمی تحریک میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہئے۔ صرف اس اہم مقصد کو پہچان کر ہی وہ اس تبدیلی  کی سمت جا سکیں گے جیسا کہ جنوبی افریقہ میں نسل پرستی اور عصبیت کو شکست ہوئی تھی۔ جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کو کچل دیا گیا صرف اس طرح نہیں کہ بہت سی حکومتوں نے اس پر بولنا شروع کر دیا تھا بلکہ اس  لیے کہ سول سوسائٹی عالمی سطح پر اٹھ کھڑی ہوئی اور اس نے نسل پرست حکومت  کا ہر سطح پر  اس وقت تک بائیکاٹ کیا جب تک کہ وہ حکومتی سطح پر اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور نہ ہو گئی۔ یہی وہ کردار ہے جو سول سوسائٹی کو فلسطین اور کشمیر کے معاملات میں  بھی ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

ویبنار میں  بتایا گیا کہ جارحیت کی تعریف پر بین الاقوامی فوجداری عدالت نے 2018 میں اتفاق کر لیا تھا اور اب ایک فریم ورک موجود ہے جس کے تحت فلسطین سے متعلق اسرائیلی اقدامات کے حوالے سے اس مسئلے پر بات کی جاسکتی ہے۔

مقررین نے کہا کہ متعدد بین الاقوامی قوانین اور کنونشنز ہیں جن کی خلاف ورزی کی جارہی ہے جن میں غیر قانونی قبضوں ، زمینوں سے دربدری ، نسل کشی ، نسلی امتیاز، اجتماعی سزا ، انسانی حقوق کے علاوہ اقوام متحدہ کی متعدد قراردادیں شامل ہیں۔ 

مبصرین نے توقع ظاہر کی کہ فلسطین کی حمایت کرنے والی سول سوسائٹی  کثیر الجہت اور قابل عمل حکمت عملی وضع  کرے گی جس میں  ڈپلومیسی ، میڈیا ، سوشل میڈیا ، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ دباؤ کے  طریقہ کار اورجنگی جرائم کے معاملات  کو سامنے رکھنا ہو گا  تاکہ ایک طویل مدتی حل کو تلاش کیا جا سکے۔ 

سفارتی محاذ پر دباؤ بڑھانے کی ضرورت کی نشاندہی کرتے ہوئے ، انہوں نے کہا کہ پاکستان ، ترکی اور سعودی عرب جیسے ہم خیال ممالک کو ایران، انڈونیشیا اور چین جیسے ممالک کے ساتھ مل کر تعاون کرنا چاہیے جو فلسطین کا ایک بہت بڑا حامی ہے۔ اس کے لیے مسلم ممالک کو او آئی سی کے باہر مختلف بلاکس تشکیل دینے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔

مبصرین نے معاون ممالک سے کہا کہ وہ امریکی صدر جوبائیڈن کو ایک مشترکہ خط لکھیں اور بتائیں کہ فلسطین سے متعلق امریکی خارجہ پالیسی خامیوں اور دوہرے معیار کا شکار ہے۔

ویبنار کے دوران اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ حامی ممالک غزہ میں انسانی ضروریات کی اشیاء ایک فلوٹلا کے ذریعے بھیجیں اور اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات درج کرنے کے لیے کچھ مسلم ممالک سے وکلاء کی ایک ٹیم تیار کی جائے۔

مقررین نے بتایا کہ متعدد ایسےعوامل ہیں جو فلسطین کے مسئلے کو تقویت دیتے ہیں۔ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں ابھی تک شامل ہے۔ مزید یہ کہ فلسطینیوں کی اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم، اسرائیل کی پارلیمنٹ کے عرب ممبران جو حکومت کو توڑنے یا بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، ایک متحرک بیرونِ ملک رہنے والی فلسطینی کمیونٹی اور اس مسئلے سے جڑی مذہبی حمیت جو اس مسئلے کو امت کا مسئلہ بنادیتی ہے،  یہ وہ اسباب ہیں جو اس تنازعے کو مسلسل زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

مبصرین نے اس بات کو واضح کیا کہ اسرائیل مقبوضہ علاقوں کے عوام کو آزادانہ نقل و حرکت، عبادت، انتخابات وغیرہ جیسے بنیادی حقوق سے محروم کررہا ہے۔ غزہ کی پٹی ، مغربی کنارے ، القدس ، یروشلم اور اسرائیل کے اندر فلسطینیوں کا بیدار ہونا دو ریاستی حل کا عملی خاتمہ ہے۔

مقررین کا موقف تھا کہ غزہ ، مغربی کنارے ، اسرائیل اور یروشلم میں مقیم فلسطینی ایک ہی قوم ہیں جو متحد ہوکر جارحیت کا مقابلہ کررہے ہیں۔ حماس ، اسلامی جہاد ، تحریک فتح اور دیگر کو بھی مل کر کام کرنا ہوگا اور پوری دنیا کے مسلمانوں تک اپنا پیغام پہنچانا ہوگا۔

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے