نغمانہ ہاشمی( چین ، یورپی یونین اور آئرلینڈ میں پاکستان کے سابق سفیر ) کے ساتھ The Living Scripts سیریز کی نشست

نغمانہ ہاشمی( چین ، یورپی یونین اور آئرلینڈ میں پاکستان کے سابق سفیر ) کے ساتھ The Living Scripts سیریز کی نشست

چین ، یوروپی یونین (EU) اور آئرلینڈ میں پاکستان کی سابق سفیر ، نغمانہ ہاشمی آئی پی ایس کے پروگرام The Living Scripts کے بیسیویں اجلاس میں مہمان تھیں، جو ۱۲ فروری ۲۰۲۱کو منعقد ہوا۔

اپنی ابتدائی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے نغمانہ نے حاضرین کوبتایا کہ وہ لاہور سے تعلق رکھتی ہیں جہاں ان کی خالہ اور نانی نے ان کی پرورش میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اپنی تعلیم پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ ایک سرگرم طالب علم تھیں اور انہوں نے اپنے اسکول اور کالج کے دنوں میں مباحثوں ، ڈراموں اور کھیلوں سمیت غیر نصابی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ ۱۹۸۲ میں بی اے کرنے کے بعدبہت اچھی تیاری کےبغیر وہ سی ایس ایس کے امتحان میں شریک ہوئیں اور کامیابی حاصل کر کے ملازمت خارجہ کے شعبے میں خدمات کے لیے منتخب ہوئیں۔

اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں نغمانہ نے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ مختلف ممالک میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے انہوں نے سیکھا کہ صبرکا مظاہرہ کیسے کیا جاتا ہے اور کس طرح بدترین حالات سے نبٹا جاتا ہے۔

فرسٹ سیکرٹری کی حیثیت سے فرانس میں اپنے وقت کو یاد کرتے ہوئے نغمانہ نے بتایا کہ وہ خود اس بات کی گواہ ہیں کہ کس طرح اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت شروع ہوئی اور وہاں پھیل گئی۔ انہوں نے بتایا کہ متعدد بار انہیں اپنے ساتھیوں کی نفرت کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم ،انہوں نے کہا کہ ملک میں بڑھتے ہوئےاسلامو فوبیا نے انہیں اسلام کا مطالعہ کرنے اور اس کی تفہیم کو گہرائی میں سمجھنے کی طرف راغب کیا۔

سابق سفیر نے ۱۹۸۷ میں صدر جنرل ضیاء الحق کے ہندوستان کے مشہور دورے کا ذکر کرتے ہوئے سامعین کوبتایا کہ اس دورے سے چند روز قبل صدر اور ان کا عملہ ان تحائف کے بارے میں تذبذب کا شکار تھا جو انہیں ہندوستان ساتھ لے کر جانے تھے۔ چنانچہ انہوں نے دخل اندازی کرتے ہوئے کچھ خیالات پیش کیےجن کی صدر نے تعریف کی اور پھر وہی تحائف پاکستانی وفد کے ساتھ ہندوستان گئے۔

چین میں اپنی آخری پوسٹنگ پر گفتگو کرتے ہوئے، سفیر نے اسے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا سب سے مشکل دور قرار دیا۔ چین کے صوبہ ہیبی میں کرونا وائرس کے اچانک پھیلنے نے سب کو حیرت میں مبتلا کردیا تھا۔ چنانچہ، کئی ممالک نے اپنے شہریوں کو عجلت میں واپس بلانا شروع کردیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے اندر بھی بہت زیادہ سیاسی دباؤ تھا ، تاہم خوب غور و خوض کے بعد حتمی فیصلہ عوام کی رائے کے خلاف تھا۔ ان کے بقول اس فیصلے سے نہ صرف پاکستان کو وبائی مرض کے خلاف ابتدائی مدد فراہم ہوئی بلکہ بہت ہی مشکل حالات میں پاکستان اور چین کے تعلقات بھی مزید مستحکم ہوئے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے