افریقہ- یوریشین میری ٹائم تجارت کے حوالہ سے پرتگالی تاریخ اور بحر ہندکے علاقے میں اس کے اثرات کا جائزہ

افریقہ- یوریشین میری ٹائم تجارت کے حوالہ سے پرتگالی تاریخ اور بحر ہندکے علاقے میں اس کے اثرات کا جائزہ

پاکستان عالمی امور بالخصوص افریقہ میں پرتگالی تجربے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے: پرتگالی سفیر

 Navigating-the-Portuguese-History-and-its-Impact-in-the-Indian-Ocean-Region

پاکستان عالمی امور بالخصوص افریقہ میں پرتگالی تجربے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے: پرتگالی سفیر

پرتگال کی اعلیٰ درجہ کی بحری مہارت اور میری ٹائم حکمتِ عملی تحقیق و دریافت کے دور میں کامیابی کا پیمانہ بنی۔ چنانچہ، اس کی بحری طاقت، تجارت اور اس کے مذہبی اور ثقافتی پہلوؤں نےاس کی خارجہ پالیسی بنانے میں اہم آلۂ کار کے طور پر کام کیا ہے۔ پرتگال کی بھرپور میری ٹائم وراثت، ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں سابق پرتگالی کالونیوں کی تاریخ اور عالمی امور کے اندر ان کے کردار میں پاکستان کے لیے بہت سی بصیرت افروز مثالیں موجود ہیں۔

یہ  پیغام پرتگالی جمہوریہ کے سفیر پاؤلو نیویس پوکینہو نے اپنی تقریر میں دیا  جو  انہوں نے  13 ستمبر2021 کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (IPS) میں کی اورجس کا عنوان تھا ’’ Navigating the Portuguese History and its Impact in the Indian Ocean Region with Special Reference to Afro-Eurasian Maritime Trade ‘‘ ۔

سفیر کے خطاب کے بعد ہونے والی گفتگو میں چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن ، وائس چیئرمین آئی پی ایس سابق سفیر  سید ابرار حسین اور آئی پی ایس ایسوسی ایٹس سابق سفیر تجمل الطاف، سینٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈ سٹیبلٹی نسٹ کے ایسوسی ایٹ ڈین  ڈاکٹر طغرل یامین ،جنرل مینیجر آپریشن آئی پی ایس نوفل شاہ رخ  اور سنٹر فار ایشین افریقن سٹڈیز کی بانی اور سی ای او فرزانہ یعقوب  نے شرکت کی۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سفیر پوکینہو نے کہا کہ میری ٹائم اور جیو اسٹریٹجک سوچ ، اورسمندری نیوی گیشن کی سائنس اور اس کا ہنر، بحر ہند اور بحر اوقیانوس کے علاقوں میں پرتگال کی اختیار کی گئی سفارت کاری خارجہ پالیسی کے وہ اہم محرکات تھے جنہوں نے تحقیق و دریافت کے دور میں پرتگال کو ایک نمایاں بحری طاقت بننے کے مواقع فراہم کیے۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ پاکستان عالمی امور بالخصوص افریقہ اور لاطینی امریکہ میں پرتگالی تجربے سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے، سفیر نے کہا ”جب مجھے حکومت پاکستان کے ’انگیج افریقہ پروگرام‘ کے بارے میں معلوم ہوا تو میں نے یہ سوچ کر وزارتِ خارجہ سے رابطہ کیا کہ  افریقہ میں اپنے تجربات  کو پاکستان کے ساتھ شیئر کرنا بہت دلچسپ ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ سائنس، ٹیکنالوجی، کاروبار اور تعلیم کے شعبوںمیں سہ فریقی تعاون کے امکانات کو تلاش کرنا بہت ہی اہم کام ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ پرتگالیوں نے 14ویں اور 15ویں صدی میں جہاز سازی ، جہاز رانی اور نقشہ نویسی کے حوالہ سے عالمگیر شہرت پائی۔ اس وقت ان کی نظریں سمندری حکمت عملی کی تعمیر، تجارتی مراکز کی تعمیر اور کلیدی اجزاء کے نیٹ ورکس کو مربوط کرنے پر مرکوز تھیں اور اگر پاکستان بھی بین الاقوامی سمندری تجارت اور سفارت کاری میں قدم جمانا چاہتا ہے تو اسے بھی  انہی نظریات   کو اپنانا ہو گا۔

اپنے خیالات کی وضاحت کرتے ہوئے، پرتگال کے سفیر نے کہا کہ تحقیق و دریافت کے دور پرتگالیوں نے شمالی افریقہ ، مراکش ، مشرقی ساحل جانا شروع کیا اور پھر جنوب میں آئے اور پھر بالآخر جنوبی افریقہ میں کیپ ٹاؤن پہنچنے میں کامیاب ہوگئے  اور یہ وہ مرحلہ تھا جب وہ بحر ہند  تک جا پہنچے۔ یہی وہ وقت تھا جب وہ بحر اوقیانوس کے دوسرے کنارے پہنچےاور برازیل دریافت کیا ، جو بعد میں لاطینی امریکہ کا سب سے بڑا ملک بن گیا۔

سفیر نے کہا کہ ان مہمات سے بشمول تجارت کئی پہلو وابستہ ہیں- جیسا کہ دنیا بحر ہند کے علاقوں میں مال بیچنے والوں کی تلاش کے ساتھ ساتھ  مختلف ثقافتوں کی تلاش میں تھی۔ لیکن پرتگالی عروج میں سائنسی پہلوکو بھی سہرا دینا چاہیے کیونکہ پرتگال کے جنوب میں ایک خفیہ اوربادشاہ کے مالی تعاون سے چلنے والا اسکول تھا جس نے سمندری سائنس اور ٹیکنالوجی پر تحقیق کی اور طالب علموں کو نیویگیشن، شپنگ، جہاز سازی وغیرہ  کا علم سکھایا جس نے  پرتگالی دریافتوں میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔

ابتدائی طور پر ، یہ ایک پرتگالی بحری بیڑا تھا جس نے آبنائے جبرالٹر کو عبور کیا اور مراکش کی اہمبندرگاہ سیوٹا پر قبضہ کر لیا ۔ یوں اس نے دنیا کے سیاسی اسٹیج پر پرتگال کی آمد کا اعلان کیا۔ آنے والی دہائیوں میں، جان کے شہزادہ ہنری نیویگیٹر نے افریقہ کے مغربی ساحل کے ساتھ متعدد مہمات کی مالی اعانت کی جس کا مقصد عیسائیت کو پھیلانا اور سونے ، مصالحوں اور غلاموں کے ذریعے منافع  کما کر پرتگال کو امیر بنانا تھا۔

شہزادہ ہنری نے اپنے ارد گرد علماء ، نقشے بنانے والوں ،ماہرین فلکیات،جہاز رانی کرنے والوں کے علم اور ذہانت کو اکٹھا کیا ہوا تھا، جسے  15ویں صدی کا  ریسرچ اور ڈویلپمنٹ ورژن کہا جا سکتا ہے۔ ایک مہم جو سرمایہ دار کی طرح ، اس نے مہمات کی مالی مدد کی جس کا مقصد معروف دنیا کی حدود کو آگے بڑھانا تھا۔ پرتگالی مہم جو واسکو ڈی گاما ، بعد میں نذارے آیا تاکہ ہندوستان کے ساتھ مسالے کی بھرپور تجارت کےلیے سمندری راستہ تلاش کیا جا سکے۔

پرتگالیوں کا اپنی نوآبادیاتی کامیابی کے بعد دوسری ثقافتوں کے ساتھ اختلاط سفارتی حکمت عملی کا ایک اور اہم حصہ تھا۔ گوا پرتگال کی اہم کالونیوں میں سے ایک تھا لیکن انہوں نے گوا میں سماجی ڈھانچے میں خلل نہیں ڈالا۔ گوادر کو فتح کرنے سے قبل ممبئی پر بھی پرتگالیوں نے حملہ کرکیا تھا۔

1974 میں پرتگال نے اپنی کالونیوں کو آزادی دی اور اب بھی پرتگالی بولنے والے افریقی ممالک میں ان کی مدد کرکے سرمایہ کاری جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہ یہاں سماجی ترقی، ثقافتی ترقی، تجارتی تعلقات، سرمایہ کاری کے تعلقات ، سیاحت کی ترقی ، ماحولیاتی تحفظ ، صلاحیتوں کی تعمیر وغیرہ میں تعاون کر رہا ہے  اوراس ثقافتی ورثے  میں سے کچھ مثبت بنانے کی کوشش کر رہا ہے جس میں زبان اور کچھ روایات مشترک ہیں۔

سفیر کی گفتگو کے بعد ہونے والے بات چیت کےاجلاس میں کئی قابل ذکر موضوعات بھی زیربحث آئے،جن میں نوآبادیاتی دور کے بعد پرتگال کا لائحہ عمل ، افریقہ میں ہونے والے تجربات کے مختلف پہلو اور بحر ہند کے علاقے میں امریکہ چین دشمنی میں ان کی متوازن حکمت عملی، شامل تھے۔

سیشن کا اختتام سابق سفیر تجمل الطاف نے پرتگالی سفیر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک انتہائی جامع اور بصیرت انگیز گفتگو سے کیا۔ انہوں نے اس بات کو سراہا کہ پرتگال نے زبان ، ثقافت اور مواصلات کو تعلقات کے پھیلاو میں پل کی طرح استعمال کیا جبکہ افریقہ کو نوآبادیاتی دور کے بعد مشکلات سے نکلنے کی کوششوں میں مدد فراہم کی۔ انہوں نے پرتگالی سفیر کی اس رائے کی بھی تائید کی کہ مشترکہ بنیادیں تلاش کی جائیں جہاں دونوں قومیں بھرپور جذبے کے ساتھ بالخصوص افریقہ اور عمومی طور پر دنیا کے بہتر مستقبل کی تشکیل کرسکیں۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے