یوریشین خطے میں علاقائی تعاون: ایس سی او کا کردار

یوریشین خطے میں علاقائی تعاون: ایس سی او کا کردار

ایس سی او کی کامیابی باہمی  مسائل کی علاقائی حل پر مبنی مصالحت  پر منحصرہے: آئی پی ایس گول میز

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) علاقائی ممالک کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اورسارک کا ایک قابل عمل متبادل پیش کرتا ہے، بشرطیکہ علاقائی مسائل کو علاقائی طور پر حل کیا جائے۔ جب تک دوطرفہ مسائل کی مصالحت  اور رکن ممالک کے درمیان ہم آہنگی برقرار نہیں رکھی جاتی ، ایس سی او  کا مستقبل غیر متعین رہے گا ۔

اس کا مشاہدہ 20  جولائ  2023کو آئی پی ایس میں منعقدہ مباحثے ‘ریجنل کواپریشن ان دا  یوریشین ریجن:  رول آف دا  ایس سی او’ کے دوران کیا گیا۔ اس موقع پر یوریشیائی خطے، خصوصاً پاکستان ، میں علاقائی استحکام، اقتصادی ترقی اور رابطے کو فروغ دینے کے لیے ایس سی او کی ایک اہم پلیٹ فارم کے طور پر اہمیت کا تجزیہ کیا گیا ۔ اس کے علاوہ ۴جولائی کو ہندوستان میں ہونے والی ایس سی او سمٹ کے نتائج کا جائزہ لیا گیا ۔

اس مباحثے میں چین میں سابق پاکستانی سفیر مسعود خالد، ڈاکٹر ثروت رؤف، ایسوسی ایٹ پروفیسر، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل) ،  بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنرایمبیسیڈر  عبدالباسط ، سفیر (ر) سید ابرار حسین، وائس چیئرمین،  آئی پی ایس ، مہر کاشف یونس، صنعت کار اور سابق سینئر نائب صدر، لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، ڈاکٹر فیصل جاوید، اسسٹنٹ پروفیسر، وفاقی اردو یونیورسٹی ، کراچی، اور پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام، ڈائریکٹر ،ریسرچ اینڈ اکیڈمک آؤٹ ریچ، آئی پی ایس،نے خطاب کیا۔

سفیر مسعود خالدنے شنگھائی تعاون تنظیم کی صلاحیتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ایس سی او سارک اور ای سی او کے مقابلے میں مضبوط تنظیم ہے۔ ایران کی شمولیت اور مغربی تسلط کی بجائے کثیر قطبیت کی حمایت کرنےوالے ڈائیلاگ پارٹنرز اور اوبزرور ریاستوں کے جغرافیائی پھیلاؤ نے اس تنظیم کی توسیع کی ہے، جس کی وجہ سے ایس سی او کے ابھرتے ہوئے علاقائی ڈھانچے میں نئے پہلو کا اضافہ ہوا ہے۔

تنازعات کے باوجود رکن ممالک اقتصادی تعاون، روابط، تجارت اور بیرونی دنیا تک رسائی کو فروغ دینے کے خواہشمند ہیں۔   تنظیم کا سلامتی، ترقی اور رابطوں پر مبنی علاقائی ڈھانچہ پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط بننے کے ساتھ ساتھ فعال طور پر کام کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔

ڈاکٹر ثروت نے کہا کہ بھارت کی جانب سے الزام تراشی کے لیے ایس سی او پلیٹ فارم کے غلط استعمال کے باوجود پاکستان جیوسٹریٹیجک محل وقوع اور تجارتی مرکز کے طور پر توجہ کا مرکز رہےگا ۔ بشرطیکہ تاریخی مسائل حل ہو ں، پاکستان کے لیےایس سی او اقتصادی خرابی اور سلامتی کے مسئلے کا حل پیش کر سکتا ہے ۔ اس سلسلے میں پاکستان کو کثیرالجہتی سفارت کاری کی کوششوں کو بڑھانے اور افغان طالبان کے حمایتی ہونے کے تصور کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔

سفیر عبدالباسط نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم فوائد کی حامل ہے لیکن اس کا حصول دو طرفہ تنازعات اور دیگر تضادات کے حل کا مطالبہ کرتا ہے جو اس کی ترقی میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ہندوستان جیسی ریاستوں کا سخت موقف، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے بارے میں ہندوستان کے تحفظات، علاقائی ممالک کے درمیان اختلاف رائے اور بداعتمادی، اور دو طرفہ تنازعات آنے والے کئی برسوں تک برقرار رہ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک دوطرفہ مسائل کی مصالحت  اور رکن ممالک کے درمیان ہم آہنگی برقرار نہیں رکھی جاتی ، ایس سی او  کا مستقبل غیر واضح رہے گا ۔

مہر یونس نے کہا کہ ایس سی او میں ۴۶ فیصد عالمی آبادی  شامل ہے اور یہ بڑی تعداد میں نوجوان نسل اور وسیع علاقےپر مشتمل سب سے بڑی کنزیومر مارکیٹ ہے۔ ان عوامل سے فائدہ حاصل کرنے کے لیےپاکستان کو ترقی پر مبنی تعاون ، عوام سے عوام کے روابط، اور  ثقافتی ، اقتصادی، زرعی ، اور قدرتی وسائل کی سفارت کاری کے علاوہ مشترکہ تحقیق اور تکنیکی و علمی تعاملات پر توجہ دینی چاہیے۔

ڈاکٹر فیصل جاوید نے کہا کہ ایس سی او کی توسیع سے یہ امکانات مزید بڑھ گئے ہیں۔ تاہم، ان عوامل کے زیادہ اثر اور فائدہ کے لیے ہم آہنگی کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔

اس سے قبل سفیر ابرار نے وضاحت کی کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے نئی دہلی اعلامیہ کے تحت رکن ممالک کا مقصد سیاسی، سلامتی اور اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانا اور دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کے خطرات کا مقابلہ کرنا ہے۔ اگرچہ اس میں ایک جمہوری بین الاقوامی سیاسی نظام کی طرف بڑھنا بھی شامل ہے، لیکن خطے میں ایک ٹھوس سیکورٹی شیلڈ قائم کرنے کے لیے بین الاقوامی اور علاقائی تنازعات کے لیے سیاسی حل بہت ضروری ہے۔

ڈاکٹر فخر الاسلام نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، تاہم تنظیم کی مجموعی افادیت کو بڑھانے کے لیے ممکنہ چیلنجز اور رکن ممالک کے مختلف مفادات پر کام کرنا چاہیے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے