ماہرین نے جنگ کے سد باب کے لیے آبی سفارت کاری کو لازمی قرار دے دیا

book-launch-of-HD-thumb

ماہرین نے جنگ کے سد باب کے لیے آبی سفارت کاری کو لازمی قرار دے دیا

 book-launch-of-HD

سندھ طاس معاہدے کی بڑھتی ہوئی بھارتی خلاف ورزیوں سے پاکستان کو شدید نقصانات ہو رہے ہیں: سردار مسعود خان، صدر آزاد کشمیر  

اسلام آباد، ۲۳ اکتوبر: ممتاز سابق سفارت کاروں اور آبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت نے سندھ طاس معاہدے کے مطابق قدرتی وسائل کی تقسیم کو موثر آبی سفارت کاری کے ذریعے بروقت حل نہ کیا تو جنگ کے خطرات بڑھتے جائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے زیرِاہتمام سابق وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی اشفاق محمود کی کتاب "ہائڈروڈپلومیسی” (Hydro-Diplomacy: Preventing War between Nuclear armed India & Pakistan) کی تقریبِ رونمائی کے موقع پر کیا گیا۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود احمد خان تھے۔ دیگر مقررین میں جناب شفقت کاکا خیل (سابق سفیر)، مرزا حامدحسن (سابق سیکرٹری پانی و بجلی)، ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمٰن اور مصنف اشفاق محمود شامل تھے۔ صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان نے پانی کے مسئلے کی سنگینی کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیاں پاکستان کو شدید نقصانات پہنچا رہی ہیں جن میں پانی کے معیار اور مقدار میں کمی، زراعت کی تباہی اور موسمیاتی تبدیلیاں شامل ہیں اور پانی کی قلت جس تیزی سے ہو رہی ہے اس کا اندازہ 1990 سے 2015 کے درمیان ہونے والی فی کس پانی کی مقدار میں کمی سے لگایا جا سکتا ہے جو 2172 کیوبک میٹر سے کم ہو کر 1306 کیوبک میٹر تک رہ گئی ہے اور بعض تخمینے 1000 کیوبک میٹر فی کس پانی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ تمام اعدادو شمار معتبر اداروں کے تصدیق شدہ ہیں جن میں UNDP اور WRI شامل ہیں۔ پاکستان پانی کی قلت کے اعتبار سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ صدر آزاد کشمیر نے بھارت کی عیاری اور ٹال مٹول کی آڑ میں چناب اور جہلم پر اپنے منصوبوں کی تیزتر تکمیل کی کوششوں کو واضح کیا اور پاکستان کی جانب سے ایک ہمہ پہلو اور مکمل ”آبی پالیسی“ بنانے کی ضرورت پر زور دیا جو ایک طرف بیرونی محاذ پر بھارت اور دیگر ہمسائیوں کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات پر نظر رکھنے کا ذریعہ بنے اور دوسری طرف اندرونی محاذ پر پانی کے ذخیروں کی تیزتر تعمیر، ماحولیات کے شعبے میں سرمایہ کاری اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے دیگر موثر اقدامات کو ممکن بنائے۔ سردار مسعود خان نے آبی مسائل کے حل کے لیے لیڈرشپ کے عزم، مکمل معلومات کا حصول اور تیسری طاقت کے مصالحتی کردار پر زور دیا اور اداروں کی مضبوطی، علمی و فکری اداروں کے فعال کردار اور عوامی شعور کو مزید بلند کرنے کو ضروری قرار دیا۔ صدر آزادکشمیر سردار مسعود خان نے مصنف کی حل طلب کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب لکھاری کے وسیع تجربے، موضوع پر مضبوط گرفت اور تمام متعلقہ پہلوؤں پر اس کی گہری نظر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ صاحبِ کتاب اور سابق سیکرٹری پانی و بجلی اشفاق محمود نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو سندھ طاس معاہدے کے تحت دریاؤں کا رُخ موڑنے یا پاکستان کی طرف آنے والے پانی کے بہاؤ کو کسی طور پر تبدیل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس کے باوجود بھارت کے تمام آبی منصوبے جو چناب اور جہلم پر بنائے جا رہے ہیں ان کے ڈیزائن ایسے ہیں جو پاکستان کی تشویش میں اضافہ کر رہے ہیں۔ پھر یہ کہ ان منصوبوں سے متعلق اعدادوشمار بھی پاکستان کے ساتھ مناسب وقت میں شیئر نہیں کیے جاتے۔ اور بھارتی ذرائع ابلاغ غلط سَلط معلومات پھیلا کر اپنے عوام کو گمراہ بھی کرتے ہیں اور دونوں ممالک میں کشیدگی کو بھی بڑھاتے ہیں۔ اس کتاب کے ذریعے پاکستان اور خطے کے تمام مملک کے سنجیدہ حلقوں کو ٹھوس حقائق اور اعدادوشمار کی روشنی میں معاملے کی درست تفہیم دینے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ خطے کے امن اور استحکام کو یقینی بنایا جاسکے۔ کتاب کے مصنف اشفاق محمود نے کتاب کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ عام طور پر میڈیا میں آنے والی خبریں عوام کو حقیقی صورتِ حال سے گہرائی کے ساتھ آگاہی نہیں دیتیں۔ اس کتاب کو لکھنے کا ایک بڑا مقصد عوام کو ان حقائق سے روشناس کرانا ہے جو پانی کے اس اہم مسئلے سے جڑے سفارتی اور سیاسی پیچ و خم کا احاطہ کرتے ہیں اور جو پچھلے کئی سالوں میں میرے مشاہدے سے گزرے ہیں۔ اور عوام و خواص اس مسئلے کے اہم پہلوؤں سے بخوبی آگاہ ہو کر قومی سطح پر موثر کاوشوں کو یقینی بنائیں تاکہ ان مسائل کا حل ممکن ہو سکے۔ سابق سفیر شفقت کاکاخیل نے مصنف اور آئی پی ایس پریس کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوءے کہا کہ اس اہم موضوع پر ایسی عمدہ کتاب وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مصنف کے اٹھائے گئے نکات کی نشاندہی کی جن میں بھارت کی آبی جارحیت، پاکستان کی آبی ضروریات اور ماحولیاتی عوامل کا گہرا شعور سرِفہرست تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بیک وقت بھارتی قیادت کے منفی رویے کا موثر جواب دینے کے ساتھ ساتھ داخلی طور پر پانی کے ذخائر کی تعمیر، دیکھ بھال، قومی معیشت اور باہمی یگانگت کو بھی یقینی بنانا چاہیے تاکہ اندرونی و بیرونی چیلنجز کا موثر اور بروقت مقابلہ کیا جا سکے۔ انسٹی ٹیوٹ کی توانائی، پانی اور موسمیاتی تبدیلی کی اسٹیئرنگ کمیٹی کے چیئرمین جناب حامد حسن نے بھی کتاب کی اشاعت کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ آبی مسائل خطرناک حد تک گھمبیر ہو رہے ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ 1960 میں کیا گیا تھا اور اس وقت کے حالات میں پاکستان خوراک کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ نئے ابھرتے ہوئے مسائل اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس معاہدے کو برقرار رکھتے ہوئے کوشش کی جانی چاہیے کہ بین الاقوامی مصالحت کے ساتھ بھارت کو اس جانب لایا جائے کہ اس معاہدے میں چند ضروری اضافے بصورت ضمیمے شامل کیے جائیں جو پیش آمدہ نئے مسائل کو حل کر سکیں۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمٰن نے کتاب کی اشاعت کی اہمیت واضح کی۔ انہوں نے مصنف کی تحقیقی کاوشوں کو سراہا۔ انہوں نے معزز مہمانوں کو تقریب میں خوش آمدید کہا۔ آج کی تقریب میں اسلام آباد کے ممتاز ملکی و غیرملکی سفارت کار سول و ملٹری سابق افسران، توانائی کے شعبے سے وابستہ ذمہ داران جامعات کے طلبہ و اساتذہ اور این جی اوز سے وابستہ افراد شامل تھے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے