توانائی کے شعبہ میں سازگار سرمایہ کاری ماحول کی تشکیل

توانائی کے شعبہ میں سازگار سرمایہ کاری ماحول کی تشکیل

 پاکستان میں توانائی کے شعبہ میں سرمایہ کاری کی راہ میں متعدد رکاوٹیں ہیں تاہم یہاں سرمایہ کاری لانے کے لیے سب سے اہم بات پاکستان کے بارے میں عمومی تاثر کو تبدیل کرتا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے زیرِ اہتمام ہونے والے سیمینار میں ماہرین اس نکتہ پر متفق نظر آئے۔ اس سیمینار کا عنوان تھا: ’’پاکستان میں توانائی شعبہ میں سرمایہ کاری کا حصول۔‘‘ اس سیمینار میں غیر ملکی سرمایہ کاروں، اعلیٰ سرکاری افسروں، قانون دانوں اور پیشہ ورانہ ماہرین نے پاکستان میں توانائی کی فراہمی کے بحران کا گہری نظر سے جائزہ لیا اور حل کی تجاویز پر غور کیا۔ اظہارِ خیال کرنے والوں میں نیپرا کے سابق ممبر عبدالرحیم، جین کو ہولڈنگ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نوید اسماعیل، پٹرولیم لائرز ایسوسی ایشن کے صدر محمد عارف، ورلڈ بنک کے کنسلٹنٹ ضیغم رضوی شامل تھے۔ آئی پی ایس کی توانائی پروگرام کمیٹی کے چیئرمین اور پانی و بجلی کے سابق وفاقی سیکرٹری حامد حسن نے اس سیمینار کی صدارت کی۔
توانائی کی فراہمی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے، اس بات کو اجاگر کیا گیا کہ رینٹل پاور پلانٹس کے فیصلہ میں عدالتِ عظمی نے ’’قابلِ اعتماد حد تک توانائی کی فراہمی‘‘ کو شہریوں کے بنیادی حقوق میں شمار کیا ہے۔ جب کہ حال یہ ہے کہ کراچی کے علاوہ پورا ملک 8500میگاواٹ بجلی فی دن پر چلایا جا رہا ہے۔ پورے ملک کے لیے یہ اتنی کم مقدار ہے کہ دنیا میں کئی جگہ صرف ایک شہر میں بجلی کی کھپت اس سے زیادہ ہوتی ہے۔ دیگر قومی پالیسیوں کی طرح توانائی پالیسی بھی محدود سیاسی مفادات کے تحت چلائی جارہی ہے۔ ہر آنے والی حکومت گزشتہ حکومت کی چلتی پالیسیوں کو بدلنا ضروری سمجھتی ہے۔ اس مرحلہ پر گزشتہ پالیسی کی خوبیوں اور خامیوں پر نظر ڈالنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی۔ پالیسی تبدیل کرتے وقت یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ اس کے نتیجے میں ہم کیا کچھ داؤ پر لگا رہے ہیں۔ معاملہ میں مزید بگاڑ اس وجہ سے بھی در آتا ہے کہ بُری بھلی جو پالیسی بنائی جاتی ہے اس پر بھی عمل نہیں ہوتا اور غیر یقینیت اور عدم اطمینان کی کیفیت جاری رہتی ہے۔

DSC 0762

 

سیمینار کے شرکاء نے مشاہدات اور احساسات کا تبادلہ کرتے ہوئے قرار دیا کہ پھیلتی ہوئی بدعنوانی، جائز طور طریقوں کا فقدان اور نوکر شاہی کی پیدا کردہ رکاوٹیں بھی اپنا رنگ دکھا رہی ہیں اور نہ صرف نئے سرمایہ کاروں کی آمد میں رکاوٹ ہیں بلکہ پہلے سے موجود سرمایہ کار کمپنیوں کو بھی ملک سے بھگانے کا باعث بن رہی ہیں۔
گفتگو میں کئی ایسی مثالیں بیان کی گئیں جن میں غیر ملکی سرمایہ کار انتظامیہ کے ایسے فیصلوں سے شدید پریشان ہوگئے جو کسی قومی مفاد کی بناء پر نہیں بلکہ محض سیاسی محرکات کی بناء پر کیے گئے تھے اور جن کی شنوائی کے لیے بھی کوئی فورم موجود نہیں ہے۔
یہ دیکھا گیا کہ غیر ملکی سرمایہ کار جو ملک میں روزگار اور خوش حالی لے کر آتے ہیں اور دوسرے ملکوں میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، ہمارے ہاں پالیسی بنانے والوں اور رائے عامہ تشکیل دینے والے حلقوں کی نظر میں مشکوک سمجھے جاتے ہیں۔ ہمارا یہ رویہ قومی دولت کے بیرون ملک جانے کا سبب بن رہا ہے۔
یہ بھی محسوس کیا گیا کہ قوانین اور اداروں کے قواعد و ضوابط اور ان کے دائرہ عمل کی حدودبہت ناقص ہیں۔ بہت سے قوانین آج بھی آزادی سے پہلے کے دور کے قوانین پر مبنی ہیں جن میں معمولی ردو بدل کرلیا گیا ہے۔ دستور میں تازہ اٹھارویں ترمیم نے معاملات کو مزید الجھا دیا ہے۔ وفاق اور صوبوں کی من مانی تعبیرات نے تیل اورگیس نکالنے کی سرگرمیوں کو کئی ماہ سے معطل کررکھا ہے۔ اور اب تک پالیسی کا ابہام دُور نہیں ہوسکا ہے۔ سرمایہ کاری کے نقصان کے اندیشے کو اہمیت نہیں دی جارہی ہے اور پالیسیوں میں سرمایہ کار کے نقطۂ نظر کوسمونے کا عمل سست روی کا شکار ہے۔

 

DSC 0699

مسائل کے حل کی راہوں پر گفتگو کرتے ہوئے تجویز کیا گیا کہ حکومت کو قوم کے ساتھ اور ملک کے مستقبل کے ساتھ اخلاص کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور قومی توانائی پالیسی تمام متعلقہ حلقوں کی مشاورت اور تجاویز کی روشنی میں تشکیل دی جانی چاہیے۔ سیکیورٹی کی صورتِ حال اور اس حوالے سے ملک کے بارے میں عمومی تاثر کو بہتر بنانے اور کرپشن کو کنٹرول کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ قومی توانائی مقاصد کو واضح کرنا اور مقاصد کے حصول کے لیے مختصر مدت، درمیانہ مدت اور طویل مدت کی حکمتِ عملیوں کو واضح طور پر سامنے لانا ضروری ہے۔

یہ بھی تجویز کیا گیا کہ ناگزیر عوامی خدمات اور یوٹیلٹی سروسز کو، جن میں توانائی بھی شامل ہے، حکومت کی مداخلت سے بہت حد تک آزاد رکھنا چاہیے۔ حکومت کو توانائی کے پید اکنند گان، تقسیم کنند گان اور صارفین کے درمیان ایک بے لاگ جج کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ایک تجویز میں کہا گیا کہ گھر کی تعمیر کے لیے دیے جانے والے قرضوں میں شمسی توانائی کے آلات کی تنصیب کے اخراجات کو بھی شامل کیا جائے اس سے قومی سطح پر توانائی کی صورتِ حال میں اگرچہ کوئی نمایاں فرق نہیں پڑے گا تاہم لوگوں کو ایک براہِ راست سہولت میسر ہوجائے گی۔ اگرچہ پن بجلی اور ایٹمی توانائی کی ترقی ہماری قومی ضرورت کو پورا کرنے کا طویل المیعاد راستہ ہے، اس کے ساتھ ساتھ کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنے کے لیے بھی اقدامات کی ضرورت ہے جس سے درمیانی مدت کا حل نکل سکتا ہے۔

DSC 0738

 

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن نے سیمینار کے اختتام پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی مسلسل ناکامیوں کو ریاست کی ناکامی قرار نہ دیا جائے۔ پاکستان کے عوام بے انتہا صلاحیتوں کے حامل ہیں، اصل کمی یہ ہے کہ پاکستان میں حکومت عوام کے ساتھ اعتماد کا رشتہ قائم نہیں کر سکی۔

نوعیت: رو داد سیمینار
تاریخ: ۱۸ دسمبر ۲۰۱۲ء

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے