پاکستان میں تکافل کاارتقاء

Takafult

پاکستان میں تکافل کاارتقاء

پاکستان میں اسلامی انشورنس یعنی تکافل ترقی کی جانب گامزن ہے اوراعداد وشمار کودیکھا جائے تو کارکردگی اورفعالیت کے پہلوؤں سے اس کے گراف کارخ بلندیوں کی طرف ہے۔۱۲ فی صد ترقی کی شرح بتاتی ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والی پانچ کمپنیاں بڑی نمایاں کارکردگی دکھارہی ہیں۔
رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں رفاہ سنٹر برائے اسلامک بزنس کے سربراہ عتیق الظفر نے ان خیالات کا اظہار ۲۸ ستمبرکو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں ہونے والے ایک سیمینار میں کیا۔ سیمینار کا موضوع تھا’’تکافل : پاکستان میں اس کاارتقاء اورموجودہ صورت حال‘‘۔

DSC_0316

 

شریعہ اکیڈمی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد طاہر منصوری نے سیمینار میں صدارت کے فرائض سرانجام دیے۔ ڈائریکٹر جنرل انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز خالد رحمن نے بھی سیمینار میں اپنے خیالات کاا ظہارکیا۔
دیگر شرکاء میں انشورنس کے پیشہ سے وابستہ افراد کے ساتھ ساتھ مالیاتی امور سے متعلق ماہرین،اسلام کے معاشی امور پر دسترس رکھنے والے دانشور، طالب علم اوروزارت خزانہ کے افراد بھی شامل تھے۔
پروفیسر عتیق الظفر نے سود سے متعلق قرآن کی آیات اور فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سود امیر اورغریب کے درمیان خلیج کو مزید وسیع کرتاہے اورمعاشرے میں برائیوں کو جنم دیتا ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم معمولی معمولی معاشرتی برائیوں سے بچاؤ کے لیے کوشاں رہتے ہیں لیکن اس انتہائی سنجیدہ پہلو پربہت کم توجہ دیتے ہیں جو ہمارے معاشرے کو طاعون کی طرح چمٹا ہواہے۔

 

 

DSC_0291

 

 

پروفیسر عتیق الظفر نے اسلام کے مالیاتی نظام کے اصول و ضوابط اورمعاہدوں پر توجہ دلائی جو معاشرے کو اس طرح کے بحرانوں سے بچاؤ کی مضبوط بنیادیں فراہم کرتاہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی مالیاتی نظام ربا(سود)، غرر (غیر یقینی ، نامعلوم، مشتبہ اورانتہائی درجے کے ممکنہ خطرات )، قمار(جوا)، میسر(لاٹری)، قرضے پر خریدی ہوئی چیز قرض پر فروخت کرنا اور فریقین میں ہونے والے بے ضابطہ معاہدوں سے روکتاہے۔انہوں نے اسلامی بنکنگ میں اہم مالیاتی معاہدوں سے متعلق شرکاء کو بتایا۔ ان میں معجل یا مرابحہ، مساقات، بیع سلم ، استسناع، مشارکہ، مضاربہ اوراسلامی انشورنس نظام یعنی تکافل شامل ہیں۔

 

 

DSC_0324 DSC_0300 DSC_0335 DSC_0299 DSC_0312

 

 

ڈاکٹر منصوری نے اس تاثر کو زائل کیا کہ روایتی انشورنس نظام کو شریعت کے منافی سمجھنے میں کوئی اختلاف ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پوری دنیا کے علمائے کرام اورسکالرز نے ۱۹۹۰ء کی دہائی میں ہی یہ مسئلہ واضح کردیا تھا کہ انشورنس کا روایتی نظام شریعہ سے متصادم ہے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تکافل سے متعلق یہ پہلو ضروری سامنے رہے کہ یہ شریعت کی تعلیمات سے مطابقت تو رکھتا ہے لیکن شرعی اصولوں کی بنیاد پر قائم نہیں ہے۔
ڈاکٹر منصوری نے اس رائے کا اظہار کیا کہ اگرچہ ملک میں تکافل پر عملدرآمد میں انتہائی شاندار ترقی ہوئی ہے تاہم بعض پہلو ایسے ہیں جن پر توجہ کی ضرورت ہے تاکہ اسے مزید مؤ ثر اورمفید بنایا جاسکے۔
ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایسی خالد رحمن نے سیمینار کا اختتام کرتے ہوئے شرکاء کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ پاکستان سمیت مسلم معاشروں میں یہ رجحان تیزی سے ابھررہاہے کہ موجودہ سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام کی نسبت اسلامی مالیاتی نظام کو متبادل کے طورپراختیار کیاجائے۔

 

DSC_0348

 

انہوں نے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد پر قائم دنیا کے معاشی نظام میں یہ بات ممکن نہیں ہے کہ اسلامی نظام قائم کیے بغیر اسلام کے مالیاتی نظام کومثالی نمونے کے طورپر اختیار کیا جاسکے۔ تاہم اسلامی مالیاتی نظام پر مبنی ادارے اس کے لیے ایک کھڑکی کی صورت میں موقع فراہم کررہے ہیں۔ انہوں نے اسلامی مالیات سے متعلق پیشہ ور افراد اوردانشوروں پر زور دیا کہ وہ ایک مثالی نظام کے لیے اپنی جدوجہدجاری رکھیں اورموجودہ اسلامی مالیاتی نظام سے ہی مطمئن ہوکرنہ بیٹھ جائیں جوکہ شریعہ کی کم از کم ضرورت کو توپورا کررہاہے اور کسی حد تک اس کے مطابق بھی ہے لیکن شریعت کے مثالی نمونے کی بنیاد پر وضع شدہ نہیں ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے