پاکستان میں موجودتعلیم یافتہ ، ہنر مند ، کاروباری افغان مہاجرین اپنے ملک میں پیدا ہونے والےخلا کو پُر کر سکتے ہیں

پاکستان میں موجودتعلیم یافتہ ، ہنر مند ، کاروباری افغان مہاجرین اپنے ملک میں پیدا ہونے والےخلا کو پُر کر سکتے ہیں

 14 ستمبر 2021 کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز  میں منعقدہ ایک انٹرایکٹو سیشن میں،  افغان رہنما اور ماہر تعلیم ڈاکٹر غلام فاروق اعظم نے افغانستان کی اسلامی امارات کی موجودہ حکومت کو عوام کے لیے واحد امید قرار دیا کیونکہ پچھلی حکومت نے ملک میں ایک انتظامی خلا چھوڑ دیا ہے جسے پُر کرنے کی ضرورت ہے۔

 PR160921-2

 14 ستمبر 2021 کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز  میں منعقدہ ایک انٹرایکٹو سیشن میں،  افغان رہنما اور ماہر تعلیم ڈاکٹر غلام فاروق اعظم نے افغانستان کی اسلامی امارات کی موجودہ حکومت کو عوام کے لیے واحد امید قرار دیا کیونکہ پچھلی حکومت نے ملک میں ایک انتظامی خلا چھوڑ دیا ہے جسے پُر کرنے کی ضرورت ہے۔

 ترقیاتی معیشت کے ماہر اور سیاست دان ڈاکٹر اعظم نے سابق افغان صدر داؤد خان کے اقتصادی مشیرکی حیثیت سے فرائض انجام دیے  ۔ بعد میں وہ  مجاہدین  کے رہنما  کی حیثیت سے سامنے آئے اور  1995 میں طالبان کے آنے سے پہلے کی دو حکومتوں کا حصہ رہے۔وہ  افغانستان میں پرامن تبدیلی کی تحریک کے چیئرمین کے طور پر گذشتہ کئی سالوں سے  انٹرا افغان امن عمل میں فعال کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

 طالبان کے حملے کی مزاحمت میں امریکی حمایت یافتہ افغان حکومتی مشینری کی مکمل ناکامی پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر اعظم نے کہا کہ  ”طالبان نے نظام کے زوال کو تیز  نہیں  کیا  بلکہ   یہ خود ہی گر گیا۔“

 ڈاکٹر اعظم کا خیال تھا کہ پاکستان میں پڑھے لکھے ، ہنر مند افغان مہاجرین افغانستان میں مغرب کے فنڈوں پر پلی طالبان مخالف افرادی قوت کے خلا کو پُر کرسکتے ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ طالبان کو ایک کمزور ملک اور سکڑی ہوئی معیشت ورثے میں ملی ہے  جو معاشی تباہی کے دہانے پر ہے۔  انہوں نے امید ظاہر کی کہ اشرف غنی کی قیادت والی حکومت کی نسبت طالبان اپنی صلاحیتوں کے باعث بہتر منتظم ثابت ہوں گے۔

 انہوں نے بے روزگاری کو افغانستان کا سب سے بڑا چیلنج قرار دیا کیونکہ تقریباً  پچاس لاکھ لوگ جو افغان فوج ، پولیس اور ملیشیا کا حصہ تھے اور امریکہ سے تنخواہ لے رہے تھے ،وہ بے روزگار ہو گئے ہیں۔ اسی طرح ،سابق ​​سرکاری ملازمین، سول سوسائٹی تنظیموں کا سٹاف، این جی اوز اور میڈیا تنظیموں کا عملہ جنہیں عالمی برادری تنخواہ دے رہی تھی اب ایک تاریک مستقبل کا سامنا کر رہے ہیں۔

امریکی انخلاء کے بعد پڑھے لکھے افغانوں کا شور اور رونا ان کی امریکہ سے محبت کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ زیادہ تر افغان لوگ جو بین الاقوامی فنڈنگ ​​پر انحصار کرتےرہے ہیں اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں کیونکہ ملازمتیں تلاش کرنا مشکل ہے اور حکومت کو وسائل کی کمی ہے۔

 انہوں نے افغانستان میں ملازمتوں کی کمی کے باعث، بڑھتی ہوئی افراتفری پر طالبان کی قیادت اور حکومت کو خبردار کیا۔ انہوں نے ان  پر زور دیا کہ وہ بے روزگار ہونے والے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرکے اس مشکل چیلنج کا سامنا کریں۔ بصورت دیگر، عوام حکومت کے خلاف رکاوٹیں پیدا کریں گے جو بالآخر اس کی کی ناکامی کا باعث بنیں گی۔

انہوں نے ایک مخمصے کا تذکرہ کیا جس کا سامنا آج کل طالبان حکومت کر رہی ہے کہ حکومت لوگوں کو کھانا کھلائے یا انہیں خدمات فراہم کرے۔ حکومت یا دیگر اداروں میں ضرورت سے زیادہ لوگوں کو ملازمت دے دینا  مستقبل میں  ملک کے لیے تباہ کن ہوگا۔

 ایک اور بڑا کام جو طالبان کے سامنے ہے وہ ریاستی مشینری کو چلانے کے لیے ہنر مند اور ہم خیال افراد کو تلاش کرنا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اب تک 12 ہزار سے زائد افغانیوں کو ملک سےنکالا ہے جس نے ہنر مند انسانی وسائل کا خلا پیدا کر دیا ہے۔ یہ  وہ لوگ  ہیں جنہوں نے امریکیوں اور سابق ​​افغان حکومت کےساتھ کام کیا تھا۔  بہرحال، اس نے ملک میں متعلقہ ہنر مند مزدوروں کی کمی پیدا کردی ہے۔

 اسپیکر نے کہا کہ پاکستان میں رہنے والے زیادہ تر افغان مہاجرین تعلیم یافتہ ، تربیت یافتہ ہیں  اور اچھے کاروباری ہیں ۔  اگر ان کے لیے   خلا کو پُر کرنے کے  مواقع پیدا کیے جاتے ہیں  تووہ نئی حکومت کی مدد کے لیے واپس افغانستان جانے کو تیار ہوں گے۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان اور آئی ای اے دونوں کو اس چیز کی سہولت فراہم کرنی چاہیے۔

 اسپیکر نے امریکہ کی نیت پر شبہ ظاہر کیا جوشاید نہیں چاہتا تھا کہ مستقبل کی حکومت کامیاب ہو یا بین الاقوامی برادری کے سامنے یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ افغانستان کے لوگ نہیں چاہتے تھے کہ وہ وہاں سے چلے جائیں۔

 ڈاکٹر اعظم ، جنہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا بیشتر حصہ مغرب میں گزارا ہے ، نے اعلان کیا کہ وہ  آئی ای اے کو افغانستان کی معاشی سلامتی اور مستقبل کے بارے میں مشورہ دینے کے لیے واپس لوٹ رہے ہیں۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے