مسلم دنیا کوسرمایہ دارانہ استعمار کے شکنجے سے نکلنے کی اشد ضرورت ہے: بین الاقوامی ماہرین

interplay

مسلم دنیا کوسرمایہ دارانہ استعمار کے شکنجے سے نکلنے کی اشد ضرورت ہے: بین الاقوامی ماہرین

 Interplay-of-Pluralism-and-Exclusionism

ممتاز پاکستانی و غیر ملکی محققین اور دانشوروں نے کہا کہ عالم اسلام اور دنیا اس وقت سرمایہ داری کے شکنجے میں ہے اور عالمی معیشت سرمایہ دارانہ استعمار ہی کا دوسرا نام ہے۔ ماضی میں نوآبادیاتی مغربی طاقتوں نے ایشیا اور افریقہ اور خود امریکہ میں مسلمانوں اور دیگر اقوام کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کیا ان کی دولت اور وسائل کو لوٹا اور الجزائر، فلسطین، ہندوستان، امریکہ اورافریقہ میں کروڑوں لوگوں کو قتل کیا اور ان کی نسل کشی کی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

اسلام اور سماجی علوم کے عالمی شہرت یافتہ پاکستانی اسکالر ڈاکٹر ممتاز احمد مرحوم کی یاد میں ۱ نومبر ۲۰۱۸ کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے زیراہتمام ’’تکثیریت اور اخراجیت، اسلام اور مغرب تعلقات کی حرکیات‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار میں مختلف ممالک سے آئے ہوئے معروف دانشوروں نے اظہار خیال کیا جن میں استنبول یونیورسٹی ترکی کے سینٹر فار اسلام اینڈ گلوبل افئیرز کے ڈائریکٹر پروفیسر سمیع الآریان، اسکول آف جرنلزم یونیورسٹی آف ٹیکساس کے پروفیسر ڈاکٹر رابرٹ جینسن ، برازیل کے ممتاز محقق صحافی اور رئیل نیوز کے نمائندہ برائے ہانک کانگ پے پے ایسکوبر، ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر الرچ ڈخ رو شامل تھے۔ سیمینار کی صدارت وائس چانسلر رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی پروفیسرڈاکٹر انیس احمد نے کی جبکہ سیمینار کے میزبان انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن نے سیمینار کے موضوع کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔

پروفیسرڈاکٹر انیس احمد نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ سرمایہ داری نظام اور عالمی معیشت ایک دوسرے کے شریک اور مددگار ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں سے مغربی اسکالرز کا تعصب ان کی لاعلمی کے سبب ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عام امریکی کا دنیا میں امریکی کارروئیوں سے کوئی تعلق نہیں ہمیں جذباتی انداز کے بجائے استدلالی انداز میں اسلام اور مسلمانوں کا بیانیہ پیش کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں دوطرفہ عوامی رابطے موثر ہیں اس کام میں وقت ضرور لگ سکتا ہے لیکن کامیابی یقینی ہے۔

ممتاز فلسطینی نژاد پروفیسر سمیع الاآریان نے اپنے مقالہ میں دنیا بھر میں نوآبادیاتی اداروں، استعماری طاقتوں اور ان کی تباہ کاری کاتفصیلی جائزہ پیش کیا ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین صدیوں میں استعماری قوتوں نے ایشیا ، افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں قدرتی وسائل کولوٹا، تاریخ اور ثقافت کو تباہ کیا ، کروڑوں لوگوں کو قتل کیا ، ان کی نسل کشی کی اور غلام مزدور بنائے اور زمینوں پر قبضے کیے۔ آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے کہیں جمہوریت کے نام پر کہیں عوام کو جبر سے نجات دلانے کے نام پر۔

انہوں نے کہا جب لوگ جمہوری طورپر حماس اور مرسی کو برسراقتدار لاتے ہیں تو انہیں برداشت نہیں ہوتا۔ جھوٹے حیلے بہانے سے ممالک پر حملہ کرکے انہیں تباہ کردیا جاتا ہے۔ عوام کو فرقوں اور لسانی اختلافات کے ذریعے لڑایا جاتا ہے۔کبھی ترک اور عرب ، ایرانی اور عرب، شیعہ سنی اور سندھی پنجابی، اردوکے اختلافات کھڑے کیے جاتے ہیں۔ دنیا میں مسلمانوں کا تاثر ایک وحشی اور جاہل قوم کے طورپر مصور کیاجاتاہے جبکہ مسلمانوں نے آٹھویں صدی میں دنیا کی سائنس، ثقافت اور تمدن کے میدانوں میں قیادت کی۔ اگر مغرب ہمیں نہ تنگ کرے تو آج بھی ہم اپنی اسلامی اور مقامی شناخت کے ساتھ گلوبل سٹیزن رہ سکتے ہیں۔

ڈاکٹر رابرٹ جینسن نے کہا کہ دنیا میں دولت اور طاقت کی تقسیم کسی اخلاقی قانون کے مطابق نہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور خوراک آج کے بڑے چیلنج ہیں۔ اصل ضرورت ہے کہ ہم انسانوں کی جان ، مال اور عزت کے تحفظ کی اقدار کو اپنائیں۔

ممتاز جرمن اسکالر ڈاکٹر الرچ ڈخ رو نے اپنے مقالے میں جدید سرمایہ دارانہ نظام کے حوالے سے بتایا کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام دولت اور فوج کے گٹھ جوڑ کی بنیاد پر وجود میں آیاہے۔ گزشتہ پانچ سو سال کے دوران استدلال کی بجائے نسل کشی، جنگوں اور تباہی کے ذریعے دولت کے انبار جمع کیے گئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ابرہیمی مذاہب میں سماجی واقتصادی انصاف اور عفوودرگزر کی اقدا ر کو اپنایاجائے۔ ضرورت ہے کہ کمزور اورپسماندہ طبقات کو اٹھایا جائے۔

برازیل کے صحافی پے پے ایسکوبر نے جو دنیا کے تقریباً سو ممالک کا سفر کرچکے ہیں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرا تجربہ لوگوں سے براہ راست ملنے سے ہے میں نے مسلمانوں کو ہمدرد، مہذب، اور ملنسار پایا۔ توہین رسالت کے مغرب میں ہونے والے واقعات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس کا مغرب سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بعض افراد اور گروہوں کی کارروائی ہے ۔

مقررین کی رائے میں امریکہ کی فوجی اوراستعماری قوتوں کو روس کے زوال کے بعد ایک دشمن کی تلاش تھی۔ ہنٹنگٹن نے اسلام اور مسلمانوں کی طرف ان کا رخ موڑ دیا۔ عام امریکی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے امریکہ کا ایک فیصد طبقہ امریکہ کے اداروں ، دولت اور پالیسیوں کو کنٹرول کرتا ہے۔

قبل ازیں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل خالدرحمن نے ممتاز عالمی محققین کی انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز آمد پر انہیں خوش آمدید کہا اور بعدازاں سمینار کے اختتام پر انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے مقررین کو تحائف پیش کیے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے