بنیادی تبادلۂ تعاون کے معاہدے: جنوبی ایشیا، انڈو پیسیفک، چین اور پاکستان کے لیےمضمرات

بنیادی تبادلۂ تعاون کے معاہدے: جنوبی ایشیا، انڈو پیسیفک، چین اور پاکستان کے لیےمضمرات

پاکستان کوبھارت اورامریکہ کے مابین بڑھتی ہوئی شراکت داری سےباخبر رہنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر w.r.t BECA (Basic Exchange Cooperation Agreement)  ، جس کا مقصد خطے پر نظر رکھنے کے لیےاول الذکر کی حوصلہ افذائی کرنا ہے۔ یہ ترقی ، جو دور رس علاقائی مضمرات رکھتی ہے ، اس بات کی متقاضی ہے کہ پاکستان اور چین باہمی تعاون کی مزید راہیں تلاش کر کے اپنے تعلقات کو صرف دفاعی اور تزویراتی دائرہ عمل میں مستحکم کرنے تک نہیں بلکہ لین دین سے لے کر آپریشنل معاملات تک بڑھائے۔

 ان خیالات کا اظہار ’بنیادی  تبادلہ تعاون کے معاہدے: جنوبی ایشیا ،  انڈو پیسیفک، چین اور پاکستان کے  لیےمضمرات‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک اجلاس میں کیا گیا جو  24 نومبر 2020 کو آئی پی ایس میں منعقد ہوا ۔ اجلاس کی صدارت ایگزیکٹو صدر آئی پی ایس خالد رحمٰن نے کی جبکہ مقررین کے پینل میں آئی پی ایس ریسرچ فیلو ایمبیسیڈر (ر) تجمل الطاف اور ڈاکٹر تغرل یامین ، اور سینئر آئی پی ایس ایسوسی ایٹس بریگیڈئر (ر) سید نذیر اور ایئر کموڈور (ر) خالد اقبال شامل تھے۔

 الطاف نے BECA اور خطے پراس کے مضمرات کاایک  بھرپور جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان اور امریکہ کے مابین 2 + 2 وزارتی دوطرفہ ڈائیلاگ میں طے پانے والا معاہدہ جغرافیائی انٹیلی جنس کے لیے تھا اور اس  کا نمونہ  2005 میں شروع ہونے والی ہند-امریکہ اسٹریٹجک شراکت داری ہے۔ مزید براں، ہندوستان اور امریکہ کی تزویراتی بغلگیری سے لاحق ہونے والے خطرات بہت زیادہ اور گہرے ہیں کیونکہ BECA نے اسلحہ کی دوڑ، جنوبی ایشیا میں تزویراتی اور سلامتی کےعدم استحکام اور خطے میں طاقت کے عدم توازن کے ایک اور دور کے لیے دروازے کھول دیے ہیں۔ BECA ہندوستان کو بحر ہند اور ایشیاء پیسیفک کے خطےپر گہری نگاہ رکھنے کی سہولت فراہم کرے گا۔

ڈاکٹر تغرل یامین کا خیال تھا کہ ہندوستان اور امریکہ کے طویل مدتی مشترکہ عزائم ہیں۔ ان کے بقول یہ بات اس حقیقت سے ظاہر ہے کہ امریکہ نے اس وقت ہندوستان کوخصوصی چھوٹ دی جب مؤخر الذکر نے عدم پھیلاؤ معاہدے پر دستخط کیے بغیر ایٹمی تجارت کی۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود کہ BECA ہندوستان اور امریکہ کو جغرافیائی انٹلیجنس کا تبادلہ کرنے کی اجازت دے گا، ان کا خیال تھا کہ یہ معاہدہ علاقائی طاقت کے توازن کو ہندوستان کے حق میں نہیں جھکا سکے گا۔ تاہم ،  پاکستان کو بہتر ڈرون کے حصول پر زیادہ توجہ دینی چاہیے کیونکہ سیٹلائٹ کے ذریعے نگرانی کرنے والے  یہ ڈرون پاکستان کو جامد اور حرکت پذیر اہداف کے بارے میں کافی حد تک درست معلومات فراہم کرسکتے ہیں۔ انہوں نے بھارت کو امریکہ پر اپنے بڑھتے ہوئے انحصار سے بھی خبردار کیا جو اپنے اتحادیوں کو  مشکل وقت میں چھوڑ دینےکے لیے بدنام ہے۔

بریگیڈیئر (ر)  سید نذیرنے کسی دشمن کے بارے میں قابل اعتماد معلومات رکھنے کی ضرورت پر زور دیا جو کسی بھی جنگ کا ایک بنیادی اصول ہے۔ انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس کے اشتراک کا معاہدہ تزویراتی اہمیت کا حامل ہے اور بنیادی طور پر جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو یہ معاہدہ چین کے خلاف ہے۔ تاہم ، جب بھی ضرورت ہوگی بھارت پاکستان کے خلاف بھی یہ طریقۂ کار استعمال کرے گا۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس معاہدے  کے باعث فوجی صلاحیتوں کے پہلو سےعلاقائی توازن  بگڑ جائے گا اور چین اور امریکہ کے مابین جاری سرد جنگ کو فروغ ملے گا۔ اس معاہدے سے خطے میں جنگ جیسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ یہ حرب کے تعجب خیز پہلوؤں اور دھوکہ دہی کے امکانات کو ختم  کر دے گا۔ یہ نظام ہندوستان کو اپنی تینوں فوجوں میں اتحاد فراہم کرے گا ۔ چنانچہ  اس کےاثرات  چین ، پاکستان اور خطے پر مرتب ہوں گے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے نذیر نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان بھارت کو یہ  دکھا دے کہ آئندہ چل کراس پالیسی کے باعث کیا دباؤ آئے گا جس پر ہندوستان اس وقت چل پڑا ہے۔

 ایئر کموڈور (ر) خالد اقبال نے انٹیلی جنس شیئرنگ معاہدے کی اہمیت پر روشنی ڈالی جس سے دونوں شراکت دار اخیر درجے کی فوجی ٹیکنالوجیز کا اشتراک کرسکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلی دو یا تین دہائیوں کے دوران ، ٹیکنالوجیز میں ہونے والی  نئی تبدیلیوں نے جنگ کی صورت حال کو ہی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ معاہدہ اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ بھارت امریکہ کےاس کھیل کا حصہ بننے پر آمادہ ہے جو وہ ایک حکمتِ عملی کے تحت چین کو قابو کرنے کے لیے  کھیلتا نظر آ رہا ہے۔ بہر حال ، اس معاہدے سے ہندوستان کو ضرورت کے وقت  امریکہ کی حاصل کردہ جغرافیائی انٹیلیجنس حاصل کرنے کی اجازت ملے گی جو پاکستان کے خلاف بھی استعمال ہوسکتی ہے۔

خالد رحمٰن نے کہا کہ پاکستان میں پالیسی حلقوں کو BECAسے حیرت زدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ معاہدہ امریکہ اور بھارت کی بڑھتی ہوئی تزویراتی شراکت داری کا تسلسل ہے جو آئندہ بھی بڑھتی رہنی ہے۔ چین کے خلاف بھارت کو مضبوط بنانے کے امریکی ارادوں کے باوجود،  بھارت کو امریکی دباؤ کے تحت چین سے متصادم ہونے میں زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ تاہم، بھارت اس موقع کو پاکستان  کو پیچھے چھوڑ دینے کے لیے مزید فوجی طاقت اور صلاحیتوں کے حصول کا ذریعہ بنائے گا۔ انہوں نے پاک امریکہ تعلقات کو لین دین قرار دیا اوراس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ چین اور پاکستان کے تعلقات بھی عملی طور پر لین دین کی سطح سے آگے نہیں بڑھ پائے ہیں۔ چنانچہ،انہوں نے زور دے کر کہا  کہ پاکستان کو چین کے حوالہ سے ایک ایسی جامع حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے جو معیشت اور فوجی ہارڈویئر سمیت دوطرفہ تعلقات کی ہر اہم جہت کو چھوئے۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں بڑھتے ہوئے خطرات توجہ طلب ہیں اور تمام فریقین کو  خطرے کا ادراک رکھنےاور جہاں سے یہ پھیل رہا ہے اس پر نگاہ رکھنے کے لیے ایک ہی صفحے پر رہنے کی ضرورت ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے