ایران اور پاکستان کو مستقبل میں کسی بھی تصادم سے بچنے کے لیے اختلافات کو کم کرنے کی ضرورت ہے: ماہرین

ایران اور پاکستان کو مستقبل میں کسی بھی تصادم سے بچنے کے لیے اختلافات کو کم کرنے کی ضرورت ہے: ماہرین

ایران اور پاکستان نے ہمیشہ جذبات پر سمجھداری کو ترجیح دی ہے جس سے ان کے تاریخی برادرانہ تعلقات مضبوط ہوئے ہیں۔ بصورت دیگر، مخالفین ان کے تعلقات میں خلل ڈال سکتے ہیں۔ اب بھی دونوں ممالک کو مزید تنازعات سے بچنے کے لیے اپنے اختلافات کو کم کرنے پر توجہ دینی چاہیے، کیونکہ مستقبل میں کوئی بھی کشیدگی پورے خطے کو خطرے میں ڈالتے ہوئے صرف عدم استحکام کو فروغ دے گی۔

ان خیالات کا اظہار ماہرین نے  18 جنوری 2024 کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کے زیر اہتمام ایک اجلاس میں کیا ، جس میں پاکستان کی مغربی سرحد پر پیدا ہوتی صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کی گئی۔

اجلاس میں آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن، ممتاز سیکیورٹی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سید نذیر اور افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر اور وائس چیئرمین آئی پی ایس سید ابرار حسین سمیت دیگر مقررین نے شرکت کی۔

شرکاء کا متفقہ طور پر کہنا تھا کہ اسلام آباد کا مؤقف جائز ہے، جبکہ تہران کو کسی بھی قسم کے خدشات کو دور کرنے کے لیے متبادل سفارتی اور سیاسی ذرائع اختیار کرنا چاہیے تھے۔ دونوں دوست ممالک کو کسی بھی خراب صورت حال سے بچنے کے لیے پرامن مسائل کے حل کے طریقہ کار کو فعال کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔

دہشت گردی کے مشترکہ خطرے کو تسلیم کرتے ہوئے مقررین نے باہمی اعتماد کی بنیاد پر ایک باہمی تعاون پر مبنی اسٹریٹجک فریم ورک اور فعال سیکورٹی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ اسلام آباد اور تہران نے غیر مشروط طور پر کشیدگی کم کرنے اور مکمل سفارتی تعلقات بحال کرنے پر اتفاق کیا۔

اندرونی اور بیرونی حساسیت کے باوجود پاکستان نے تاریخی طور پر ایران کے ساتھ گرمجوشی کے تعلقات برقرار رکھے ہیں اور اپنے تعلقات میں توازن قائم کرنے کے لیے پیچیدگیوں کا کامیابی کے ساتھ سامنا کیا ہے۔ یہ خوشگوار تعلقات مستقبل میں بھی برقرار رہنے چاہئیں۔ دونوں ممالک کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے درمیان کوئی بھی تنازعہ عالمی توجہ غزہ کی جنگ سے ہٹا دے گا، بالآخر اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی حمایت کرے گا اور مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔

مقررین نے کہا کہ مشرق وسطیٰ پر جنگ کے بادل پہلے ہی منڈلا رہے ہیں، غزہ اور دیگر جگہوں پر اسرائیلی جارحیت کے پیش نظر کوئی بھی مہم جوئی اس تنازع کو جنوبی ایشیا کی طرف لے جا سکتی ہے۔ اس کا فائدہ صرف ان قوتوں کو ہوگا جو اپنے مفادات کے لیے اس خطے کو غیر مستحکم رکھنا چاہتی ہیں۔

لہٰذا مقررین نے کہا کہ دونوں برادر ممالک کو غلط فہمیوں سے گریز کرنا چاہیے، قریب آنا چاہیے اور اپنے مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہیے جو کہ ان کے داخلی استحکام کے لیے ان کی سماجی و سیاسی فالٹ لائنز کے پیش نظر بھی بہت ضروری ہے۔

ماہرین نے ایران اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے حوالے سے چینی نقطہ نظر کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ بیجنگ جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کو فروغ دینے کے لیے ایک توازن کار کے طور پر کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جو خطے میں چین کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ کسی بھی دوسری علاقائی طاقت کے لیے۔

اپنے اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے اس بات پر زور دیا کہ خطے میں جنگ جیسا ماحول پیدا کرنے سے بیرونی عناصر کے علاوہ کسی کو فائدہ نہیں ہوتا۔ تاہم، پاکستان کا کالکولیٹِڈ اور متناسب جواب فیصلہ سازی میں پختگی اور جذباتی رد عمل کے مقابلے میں سوچ سمجھ والے انداز کی نشاندہی کرتا ہے۔

انہوں نے مشاہدہ کیا کہ غزہ اور فلسطین جیسے بین الاقوامی مسائل کے بجائے ایران پاکستان سرحد پر دی جانے والی اچانک توجہ بیانیہ میں ہیرا پھیری کے امکان کو اجاگر کرتی ہے۔ انہوں نے امن برقرار رکھنے اور سفارتی ذرائع سے مسائل کے حل کے لیے اسلام آباد اور تہران کی قیادت کی تعریف کی اور کشیدگی میں کمی کے لیے سفارت کاری پر توجہ دینے پر زور دیا۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے