روایتی اور غیر روایتی اداروں کے تحت پاکستان کا طرزِ حکمرانی۔ ایک مقالہ

روایتی اور غیر روایتی اداروں کے تحت پاکستان کا طرزِ حکمرانی۔ ایک مقالہ

 

3دسمبر 2013ء کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے ایسوسی ایٹ راؤ جاوید اقبال نے ایک مقالہ پیش کیا جس کا موضوع تھا ’’روایتی اور غیر روایتی اداروں کے تحت پاکستان کاطرزِ حکمرانی‘‘۔
اس موقع پرصدارت کے فرائض آئی پی ایس نیشنل اکیڈمک کونسل کے ممبر ریاض الحق نے ادا کیے۔ دیگر شرکاء میں آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن، آئی پی ایس کے سینئر ایسوسی ایٹس ائیر کموڈور (ر) طارق امین الدین اور امان اللہ کے علاوہ آئی پی ایس کی ریسرچ ٹیم بھی شامل تھی۔
ڈویلپمنٹ اسٹڈیز میں ماسٹرز کے لیے تیار کیے گئے اس مقالے پر گفتگو کرتے ہوئے راؤ جاوید اقبال نے پارلیمنٹ اور بیوروکریسی سے لے کر مساجد، جرگوں اور این جی اوزجیسے روایتی اور غیر روایتی اداروں کی نشاندہی کی جو حکومتی نظام کے ساتھ ساتھ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
انہوں نے وضاحت سے بتایا کہ ان تمام کا مطمح نظر ایک دوسرے سے کس طرح مختلف ہے اور وہ کس طرح مثبت اور منفی رویوں کے ساتھ اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہو ں نے ان تمام نظاموں کو جمہوریت، انسانی حقوق، وراثت میں خواتین کے حصے وغیرہ جیسے موضوعات کے تحت الگ الگ پیرائے پر پرکھا اور تمام موضوعات کے اندر تک جھانکنے کے لیے تیار کردہ ایک اشاریے سے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنی تحقیق کی مدد سے کارکردگی کے پیمانے پر پاکستان کی جمہوریت کا مغربی جمہوریت سے تقابل پیش کیا۔ انہوں نے اپنے مقالے میں طالبان اور جنوبی ایشیا کے کئی رہنماؤں کے ظہور جیسے دیگر انتہائی اہم امور پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ مساجد کو طرز حکمرانی میں اس سے زیادہ بڑا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مقالہ پیش کیے جانے کے بعد سوال و جواب کی نشست بھی ہوئی۔

 

مقالے کو پرکھتے ہوئے ریاض الحق نے اس تحقیقی کام میں کئی مثبت پہلوؤں اور کمزوریوں کی نشاندہی کی۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کو طرز حکمرانی میں اس لیے ایک مؤثر طریقہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے تمام لوگوں کو بااختیار اور سب کے لیے زندگی کا معیار ایک جیسا بنانے کے مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مساجد ملکی اہمیت کے معاملات میں کردار ادا کرتی ہیں لیکن وہ کسی بھی طرح پارلیمنٹ کا متبادل نہیں ہوسکتیں کیونکہ ملک میں مسلک کی بنیاد پر تقسیم کا کسی کے پاس سادہ سا جواز بھی نہیں ہے۔
آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن نے اپنی اختتامی تقریر میں کہا کہ جاگیرداری نظام، کا رپوریٹ سیکٹر اور میڈیا جیسے کئی دیگر عوامل بھی پاکستان میں حکومتی معاملات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ انہوں نے راؤ جاوید کی کوشش کی حوصلہ افزائی کی اور ان کے کام کو سراہا۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے