’افغان ہسٹوریوگرافی: اے ہائبرڈ تھریٹ ٹو پاکستان ‘

’افغان ہسٹوریوگرافی: اے ہائبرڈ تھریٹ ٹو پاکستان ‘

سوِل سوسائٹی   اورعلمی حلقے پاک افغان تعلقات کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں: آئی پی ایس ویبینار

 Afghan-Historiography

سوِل سوسائٹی   اورعلمی حلقے پاک افغان تعلقات کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں: آئی پی ایس ویبینار

افغانستان اور پاکستان کے درمیان موجود بداعتمادی کی فضا بڑی حد تک برسوں سے جاری حقائق کو مسخ کرنے  کی کوششوںکا نتیجہ ہے جو سیاسی طور پر ایک محرک ایجنڈے کا شاخسانہ ہے۔ ضرورت اب اس بات کی ہے کہ دونوں ممالک کی مشترکہ تاریخ  میں موجود  خلاء کو دور کرکے مشترکات کو سامنے لایا جائے، اوریہ کام اکیڈمیا اور سول سوسائٹی کی رہنمائی میں، تمام قصے کہانیوں اور من گھڑت باتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے ،ایک ایسے بیانیے کی تشکیل کے ذریعے کیا جا سکتا ہے جو  کہ سچ  پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ زمینی حقائق سے مطابقت رکھتا ہو اور جس کا مقصد  پرامن بقائے باہمی کو یقینی بنانا اور دو طرفہ تعلقات کو مضبوط کرنا  ہو۔

 افغانستان اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات پرگفتگو کرتے ہوئےشرکاء نے اس رائے کا اظہارانسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) ، اسلام آباد میں 29 دسمبر، 2021 کومنعقدہ ایک ویبینار میں کیا جس کا عنوان تھا ’افغان ہسٹوریوگرافی: اے ہائبرڈ تھریٹ ٹو پاکستان ‘ ۔

اس اجلاس سے یونیورسٹی آف ٹرومسو، ناروے کی ایسوسی ایٹ پروفیسرڈاکٹر فرحت تاج نے کلیدی مقرر کے طور پر خطاب کیا جبکہ اس کی صدارت آئی پی ایس کے وائس چیئرمین ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ)  سید ابرار حسین نے کی ۔ مباحثے میں شریک دیگر افراد میں  آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن ، سابق رکن پارلیمنٹ اخونزادہ چٹن، اسٹریٹجک امور کے ماہر بریگیڈیئر (ر) سید نذیر، معروف مصنف اور افغان امور کے ماہر جمعہ خان صوفی، ہری پور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی اور آئی پی ایس کے جی ایم آپریشنز نوفل شاہ رخ شامل تھے۔

 افغانستان سے پیدا ہونے والے ہائبرڈ خطرات پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر تاج نے اس کردار پر زور دیا جو افغانستان اور پاکستان کے علمی اورتحقیقی ادارے اور سول سوسائیٹی کسی بھی سیاسی ودیگر دباؤ کے بغیر حقیقی تحقیق کے ذریعےادا کر سکتے ہیں تاکہ ایک ایسا بیانیہ تیار کیا جا سکےجو تاریخی بنیادوں پر مبنی ہو۔

 انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ افسانے پیش کرکر کے حقائق کو جس طرح مسخ کیا گیا ہے اس نے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان بداعتمادی کی خلیج کو بہت مزید وسیع کر دیا ہے۔

مثال کے طور پرسپیکر نےکہاکہ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ جو تاریخی شواہد کی روشنی میں ایک طے شدہ معاملہ تھا، افغان حکمرانوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے لوگوں کے ذہنوں میں  اس سے متعلق زہر بھرا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسےپذیرائی ملنی چاہیے اور اسے علمی حلقوں کے ذریعے زیر بحث لایا جانا چاہیے تاکہ حکومت، سیاست دانوں، دانشوروں اور دیگر متعلقہ فریقین کو اس کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے۔

پاکستان کی جانب سے ان  حالات  میں کی جانے والی کوششوں پر بات کرتے ہوئے، ایمبیسیڈر (ر) ابرار کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغانستان میں جاری طویل عدم استحکام کے دوران پاکستان آنے والے ہزاروں افغان طلباء کو جدید تعلیم اور رہائش کی سہولتیں فراہم کی ہیں ۔ انہوں نے ریاست مخالف عناصر کی جانب سے افسانے کو تاریخ کے طور پر پیش کیے جانے کے جواب میں جوابی بیانیہ سازی میں پشتو زبان کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔

 دونوں ممالک کے بیچ موجودہ بداعتمادی کو دور کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے  خالد رحمٰن نے رائے دی کہ مذہب ان دونوں قوموں کو قریب لا کر بہتر تعلق استوار کرنے میں کارگر  ثابت ہو سکتا ہے ۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ سابق قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخواہ میں حکمرانی کے بحران نےوہاں کے لوگوں میں شکایات پیدا کی ہیں  جن کی بنا پر ملک دشمن عناصر انہیں ریاست کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔  

دیگر مقررین نے بھی اس حقیقت کو اجاگر کرنے کی ضرورت محسوس کی کہ متنازعہ معاملات کو حل کرنے کی امید میں انہیں پس پشت ڈالنے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ یہ ضروری ہے کہ  دونوں ممالک کے درمیان متنازعہ تاریخی معاملات کی فضا کو صاف کرنے کے ساتھ ساتھ تاریخی واقعات کی حقائق پر مبنی رپورٹنگ کی اہمیت کو سمجھا جائے۔

اجلاس میں اس بات کا بھی تذکرہ ہوا کہ دونوں ممالک کو پرامن بقائے باہمی کے ساتھ رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کی بقا ایک دوسرے پر منحصر ہے۔ اس کے ساتھ اس بات پربھی  زور دیا گیا کہ اگر اس بیانیے کو دونوں ہمسایہ ممالک کی قومی گفتگو کا حصہ بنایا جائے تو یہ دونوں ممالک کی آنے والی نسلوں کےلیے بہت مفید  ثابت ہو گا۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے