The Living Script کی نشست ایمبیسیڈر (ر) عمر خان علی شیر زئی کے ساتھ

The Living Script کی نشست ایمبیسیڈر (ر) عمر خان علی شیر زئی کے ساتھ

آئی پی ایس کی زبانی تاریخ کی سیریز  The Living Script کی تیسویں  نشست  ایمبیسیڈر (ر) عمر خان علی شیر زئی کے  ساتھ  22 جولائی 2022 کو منعقد ہوئی۔ عمر خان علی شیرزئی نے سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر اور  9/11 کے بعد  مزار شریف اور قندھار میں قونصل جنرل کے طور پر نمایاں خدمات انجام دیں۔  انہوں نے قطر اور متحدہ عرب امارات میں بھی کئی سفارتی تقرریوں پر ذمہ داری ادا کی۔

انہوں نے بتایا کہ وہ  1948 میں کرم ایجنسی میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ضلع کرم کے صدر مقام پاراچنار میں حاصل کی اور بعد ازاں اسلامیہ کالج پشاور سے امتیازی سند حاصل کی۔  1975 میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے سے پہلے انہوں نے صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخواہ) میں لوکل گورنمنٹ، الیکشن اور دیہی ترقی کے محکمے کے تحت پروجیکٹ مینیجر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

1976میں انہوں نے فارن سروس میں شمولیت اختیار کی اور ابوظہبی میں تھرڈ سیکرٹری کے طور پر تعینات ہوئے۔ بعد میں انہوں نے 1989-1993 کے دوران قطر میں خدمات انجام دیں اور سمندر پار پاکستانیوں کی سہولت اور ترقی کے لیے تندہی سے کام کیا۔ بعد ازاں 1993 سے 1996  تک افغانستان کےشہر مزار شریف میں خدمات انجام دیں۔

1993میں مزار شریف میں اپنی تقرری کو یاد کرتے ہوئے، انہوں نے حاضرین کو پاکستان کے خلاف افغان شہریوں کی اس وقت کی ناراضگی اور تحفظات سے آگاہ کیا جو بڑی حد تک بھارتی پروپیگنڈے اور خطے میں اس کی بھاری سرمایہ کاری کا نتیجہ تھے۔ اپنی سفارتی مہارت اور مؤثر کام کے ذریعے انہوں نے نہ صرف اس خطے کے افغانوں میں پاکستان مخالف جذبات کو کم کیا بلکہ جنرل عبدالرشید دوستم کے ساتھ بھی ان کے اچھے تعلقات قائم کیے۔ انہوں نے پاک افغان تعلقات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ، انہوں نے بتایا کہ ان کی تقرری کےدور میں جنرل دوستم نے پاکستان کا تین بار دورہ کیا۔

بعد ازاں انہوں نے 1996میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ڈپٹی ہیڈ آف مشن کے طور پر خدمات انجام دیں۔ 1998 میں، وہ جدہ میں قونصل جنرل بن گئے ۔ اس ذمہ داری کے دور میں انہوں نے  تارکین وطن کے لیے کئی ترقیاتی  کام کیے۔

پھر 1999 میں، انہوں نے قندھار، افغانستان میں قونصل جنرل کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ملا عمر کے ساتھ اپنی گفتگو کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملا عمر ہمیشہ پرامن افغانستان اور مستحکم پاک افغان تعلقات چاہتے تھے۔  انہوں نے مغربی میڈیا  کے پروپیگنڈہ کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغان جنگجو دہشت گردی نہیں بلکہ جہاد کے جذبے سے لڑے۔

 انہوں نے 2009میں وزارت خاجہ کی سروس سے ریٹائرمنٹ تک سعودی عرب میں بطور سفیر خدمات انجام دیں۔ بعد ازاں وہ ایم کیو ایم میں شامل ہو گئے۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں اپنے بصیرت افروز خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی ایڈہاک نظریہ پر چل رہی ہے اور اس کی تشکیل اور طرزِ عمل کے لیے ایک طے شدہ ہدف اور سمت کا فقدان ہے۔ انہوں نے یہ بھی تجویز کیا کہ پاکستان کے سیاسی ڈھانچے کو فیصلہ سازی میں ٹیکنو کریٹس کی حمایت کرنی چاہیے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ پاکستان معاشی طور پر مستحکم اور امداد دینے والا ملک بننے کی صلاحیت رکھتا ہے بشرطیکہ ملک کا ہر ادارہ اپنے دائرہ کار سے باہر کام کرنے کے بجائے اپنے دائرہ کار میں ایمانداری اور فرض شناسی کے ساتھ کام کرے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے