پاکستان کا خصوصی اقتصادی زون: مواقع، مشکلات اور حکمت عملی

pak exclus

پاکستان کا خصوصی اقتصادی زون: مواقع، مشکلات اور حکمت عملی

پاکستان کی بحری صلاحیت کا استعمال ہونا چاہیے: آئ پی ایس سیمینار

 بحر ہند میں ۱۰۰۰ کلو میٹر کے ساحل کیساتھ ۲۰۰ ناٹیکل میل تک پھیلی ہوئی پاکستان کی خصوصی اقتصادی اہمیت کی حامل  سمندری حدود  خاص طور پر حکمران اشرافیہ کے درمیان شعور کی کمی کی وجہ سے نظر انداز ہو رہی ہے جو کہ حیاتی نظام، سمندری غذا ، معدنیات اور ہائیڈرو کاربن جیسے وسائل سے مالا مال ہے جبکہ رقبہ کے اعتبار سے یہ علاقہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ سے زیادہ رقبے پر محیط ہے۔

یہ انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد میں ۱۱ اکست ۲۰۱۶ کو منعقد ہونےوالے ایک سیمینار کا حاصل گفتگو تھا جسکا عنوان ” پاکستان کا خصوصی اقتصادی زون: مواقع، مشکلات اور حکمت عملی” تھا ۔

(ریٹائرڈ) سیشن کے مرکزی اسپیکر کمانڈر
  ڈاکٹر اظہر احمد، سینئر آئی پی ایس ایسوسی ایٹ اور سوشل سائنسس کے سر براہ ، بحریہ یونیورسٹی، اسلام آباد تھے،
جبکہ رئیر ایڈمرل ریٹائرڈ سلیم اختر نے سیشن کی صدارت کی۔ مختلف سرکاری وزارتوں اور مسلح افواج کے حکام، پالیسی تجزیہ کاروں، محققین، اور طالب علموں کی ایک بڑی تعداد نے سیمینار میں  شرکت کی.

سیمینارمیں  بھی بتایا گیا ہے کہ کئی سال کے وقفے کے بعد 2002 کی فرسودہ قومی بحری پالیسی کی متعلقہ وزارتوں کی رائے کے ساتھ نظر ثانی کی جا چکی ہے اور مزید کارروائی کے لئے کابینہ ڈویژن کو ارسال کر دی گئی ہے

اسپیکر اور شرکاء ان خیالات میں متفقہ تھے کہ پاکستان کے سمندری وسائل کی اقتصادی صلاحیت کو دریافت کرنے کے لئے آگہی اور مطلوبی تحقیق کو ابھی تک  متعلقہ احکام کی طرف سے نظر انداز کیا گیا ہے جو کہ پاکستان کے بحری دنیا کی مضبوط قوم بننے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔

ڈاکٹر احمد نے سامعین کو آگاہ کیا کہ آزادی کے ابتدائی سالوں میں ہی دو تحقیقی جہاز اس مقصد کے لئے معمور کیے گئے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ  ملک بنانے والوں کا قومی اہمیت کے اس پہلو کے بارے میں کیا تصور تھا۔ یہ جہاز ۱۹۹۰ءتک  پاکستان کی بحری حدود میں سمندر اور اسکے وسائل کا جائزہ لیتے رہے اور بالاخر کراب حالت کی وجہ سے سبکدوش ہوئے۔

انہوں نے شرکاء کو بتایا کہ اسکے بعد بحری تحقیق اور بحری اقتصادیات کا جائزہ لینے کی سوائے چند ایک غیر ملکی امدادا کے منصوبوں کے علاوہ کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی حتی کہ قومی ادارہ سمندری سائنسز  گذشتہ کچھ سالوں سے ایک تحقیقی جہاز حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے جسے تا حال کوئی کامیابی نہیں ملی۔

انہوں نے خاص طور پر اٹھارویں تر میم کے بعد وفاقی اور صوبائی سطحوں پر کئی وزارتوں کے درمیان تعاون کے طور پر ملک کے سمندری امور کو کنٹرول کرنے کے لئے اس اہم علاقے کیلئے ایک انتہائی اہم اتھارٹی قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

رئیر ایڈمرل ریٹائرڈ سلیم اختر نے اپنے اختتامی کلمات میں ملک کی ساحلی پٹی خاص طور پر کراچی میں صنعتی فضلے اور بندرگاہوں پر تیل پھیلنے سے پیدا ہونیوالی سمندری آلودگی کی خطرناک صورتحال کے مسئلے کو اجاگر کیا جس نے سمندری زندگی اور سمندری غذا کی برآمد کو بھاری نقصان پہنچایا ہے ۔ کچھ سال پہلے پاکستانی ساحل سے پکڑی جانے والی مچھلی میں  زہریلے مادوں کی بڑی مقدار پائی جانے کی وجہ سے یورپی یونین کی طرف سے اسکی برآمد پر پابندی عائد کر دی گئی ہے

انہوں نے  گہرے پانیوں میں ماہی گیری کے لئے جدید جہاز اور ٹیکنالوجی کے فقدان اور فشریز ڈیپارٹمنٹ میں کرپشن پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی ٹرالروں کو پاکستانی گہرے پانیوں تک رسائی کی اجازت دے دی گئی ہے جبکہ غریب پاکستانی ماہی گیر سہولیات نہ ہونے کے باعث چھوٹے درجے کی کشتیوں میں ساحل کے قریب آلودہ پانی میں مچھلی پکڑنے پر مجبور ہیں ۔ 

پاکستان کی خصوصی اہمیت کی حامل بحری حدود کے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے میں شامل کرنے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سلیم اختر نے کہا کہ اگرچہ چین اور پاکستان کے مابین  یہ تاریخی منصوبہ  سڑک کے ذریعے گوادر کو سنکیانگ سے ملانے کا حامل ہے لیکن پاکستان نیوی کو بھی اس منصوبے کی حفاظت کے لئے سمندری سیکیورٹی فراہم کرنے کے لئے لیس ہونا چاہیئے۔  

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے