افغان مہاجرین کی زبردستی واپسی کا اقدام غیر دانشمندانہ ہو گا: ماہرین

Afg refugees in Pak thumb2

افغان مہاجرین کی زبردستی واپسی کا اقدام غیر دانشمندانہ ہو گا: ماہرین

Afghan refugees 26-jan 

26جنوری 2018ء کو آئی پی ایس میں ہونے والی گول میز نشست میں پالیسی ماہرین کی اکثریت نے پاکستان سے لاکھوں افغان مہاجرین کے زبردستی انخلا کو غیر دانشمندانہ اور  ملکی مفاد کے لئے غیر مناسب قدم قرار دیا۔

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمٰن نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے 24لاکھ رجسٹرڈ اور نامعلوم تعداد میں غیررجسٹرڈ افغان مہاجرین کو کسی جامع پالیسی کے بغیر افغانستان واپس بھیجنا ممکن نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کے مسئلے پردو مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک کے مطابق وہ اثاثہ ہیں اور دوسری رائے کے مطابق ایک بوجھ۔ تاہم اس مسئلے کوآسان نہیں لیا جانا چاہیے کیونکہ اس میں بہت سی پیچیدگیاں ہیں۔ فیصلوں کو تصورات اور ردّعمل پر مبنی نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس انتہائی اہم ملکی اور علاقائی اہمیت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کافی تحقیق اور پالیسی مباحث کی ضرورت ہے۔

سابق آئی ایس آئی چیف جنرل (ریٹائرڈ) اسد درانی کا کہنا تھا کہ لاکھوں افغان مہاجرین کو بزورِطاقت واپس بھیج دینا چار دہائیوں کی سرمایہ کاری کو تباہ کردینے کے مترادف ہے جو کسی طور پر پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان مہاجرین کی کم از کم دو نسلیں پاکستان میں پیدا ہوئی ہیں اور ان کے نوجوانوں میں بہت بڑی تعداد ایسی ہے جنہوں نے اپنا ملک دیکھا تک نہیں۔ ان میں دہشت گرد یا فسادی چھپے ہوسکتے ہیں تاہم بہتر یہ ہے کہ وہ یہاں رہیں اور ان پر نظر رکھی جائے نہ  کہ انہیں واپس بھیج دیا جائے اور پھر وہ پاکستان کے خلاف کسی سزا کے خوف سے آزاد جو کچھ مرضی کرتے رہیں۔

مشہورکتاب ’فریبِ ناتمام‘ کے مصنف اور سابق پشتون قوم پرست لیڈر جمعہ خان صوفی نے افغان مہاجرین کو اثاثہ یا ذمہ داری کے طور پر تسلیم کرنے کا نقطۂ نظر مسترد کر دیا۔ جمعہ خان نے 1970 کی دہائی میں افغان حکومت کی پاکستان میں دہشتگردی کو فروغ دینے کی منصوبہ بندی کے عملی گواہ ہیں اور انہوں نے اسے دستاویزی شکل دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کے بہت سے پاکستان مخالف سرکاری حکام پاکستان میں مہاجررہ چکے ہیں۔  وہ کبھی بھی پاکستان کے وجود اور اس کی حاکمیت کا احترام نہیں کر سکتے اور اس کی وجہ اعلیٰ درجے کی قوم ہونے کا وہ زعم ہے جو افغانوں کی تاریخ میں ایک قومی بیانیے کی صورت میں چلا آ رہا ہے۔ انہوں نے افغان مسئلے کو ایک انسانی مسئلہ قرار دیا جسے انہی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے۔

ساؤتھ ایشین سٹریٹیجک سٹیبلٹی انسٹی ٹیوٹ یونیورسٹی (SASSI) کے شعبہ انٹیلی جنس اینڈ انٹرنیشنل سکیورٹی سٹڈیز کے ڈائریکٹر بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) اسحاق احمد نے افغان مہاجرین کے جبری انخلا کو خام خیالی قرار دیا۔ انہوں نے تجویز کیا کہ افغان مہاجرین کی درجہ بندی کی جائے اور مخصوص معیار پر پورا اترنے والوں کو پاکستانی شہریت یا کاروبار، کام یا تعلیم کے لیے ویزا کی پیشکش کی جائے۔

اس موقع پر دیگر شرکاء میں سابق سفیروں تجمل الطاف، ابرار حسین، ایازوزیر، پروفیسر ڈاکٹر عدنان سرور، ڈاکٹر شہریار خان، بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) سیدنذیر محمد، ثروت سلطانہ، وقارالنساء اور ایک افغان مہاجر پی ایچ ڈی سکالر ذاکر حسین بھی شریکِ گفتگو رہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے