بین الاقوامی قانون برائےمہاجرین،اسلامی شریعہ اور پاکستان میں افغان مہاجرین

intl_ref

بین الاقوامی قانون برائےمہاجرین،اسلامی شریعہ اور پاکستان میں افغان مہاجرین

intl_ref

’’بین الاقوامی قانون برائےمہاجرین،اسلامی شریعہ اور پاکستان میںافغان مہاجرین‘‘ کےموضوع پر انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد اور اقوام متحدہ ہائی کمشن برائےمہاجرین (UNHCR) کےاشتراک سےمنعقدہ سیمینار میں ا سکالرز نےمہاجرت اور سیاسی پناہ کےمسائل پر شریعت اسلامی اور مروجہ بین الاقوامی قانون برائےمہاجرین کےعلمی تقابل اور جائزے کےساتھ ساتھ پاکستان میں افغان مہاجرین کےمسئلہ کےمختلف پہلو وں پر روشنی ڈالی اور اہم تجاویز پیش کیں۔ ایک روزہ سیمینارکی دوعلمی نشستوں میںجن اسکالرز نےاظہار خیال کیا اُن میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کےچئیرمین پروفیسرخورشیداحمد، سینیٹرایس ایم ظفر، جنرل (ر) اسددرانی، وفاقی وزیرجناب نجم الدین، ایم کیوایم کےرہنما اور وفاقی وزیر ڈاکٹر فاروق ستار،سابق سفیر جناب رستم شاہ مہمند، یواین ایچ سی آر کےنمائندےجناب مینگیشا کبیدی، سابق سفیر جناب ایازوزیر، اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کےاستاد پروفیسرمحمد منیر، پشاور یونیو رسٹی کےاستاد ڈاکٹر عدنان سرور، افغان مہاجرین کےنمائندےجناب قطب الدین ہلال اور دیگر شامل تھے۔ شرکاء میں مختلف ممالک کےسفارت کار، این جی اوز کےنمائندے،اعلیٰ تعلیمی اداروں کےاساتذہ اور علمی وتحقیقی اداروںسےوابستہ افراد شامل تھے۔
Khalid Rahmanسیمینا ر کےافتتاحی اجلاس سےآئی پی ایس کےڈائریکٹرجنرل جناب خالدرحمن اور یواین ایچ سی آر کےنمائندےجناب قاسم نےسیمینارکےموضوع اور اس کےپس منظر پر روشنی ڈالی۔ یواین ایچ سی آر کےنمائندےنےبتایا کہ امان،سیاسی پناہ اور مہاجرت کےمسئلہ پر اسلامی شریعت اور موجودہ بین الاقوامی قانون برائےمہاجرین میں کوئی تضادنہیںہے۔انہوںنےبتایا کہ اس علمی موضوع پر UNHCR نےOIC اور سعودی عرب کی نائف یونیورسٹی کےتعاون سےعربی اور انگریزی میںایک کتاب (سیاسی پناہ کاحق: اسلامی شریعہ اور بین الاقوامی قانون برائےمہاجرین میں۔۔ ایک تقابلی مطالعہ از پروفیسر ابوالو فا) بھی شائع کی ہے۔ اس کتاب کی تقریب اجراء مصر اور سعودی عرب میںبھی ہورہی ہے۔
جناب خالدرحمن نےکہا کہ اگر چہ اسلامی شریعت سرکاری اور عملی طورپر اس خطےمیںنافذ نہیںہےلیکن اسلامی روایات اور اسلامی روح مسلم معاشرےمیںختم نہیںہوئی ہےاور انہی روایات کی وجہ سےمسلم ممالک میںجہاںسب سےزیادہ مہاجرین ہیں،مظلوم مہاجرین کو تحفظ ،پناہ اور امان ملتی ہے۔
نجم الدین خانوفاقی وزیرجنا ب نجم الدین خان نےکہا کہ ۴ء۴ ملین تک افغان مہاجرین پاکستان میںرہتےرہےہیںجن میںسے۴ء۱  ملین رجسٹرڈ ہیںاور باقی رجسٹرڈ نہیںہیں۔ اس کےعلاوہ ہم وطن بےگھر افراد بھی لاکھوں کی تعداد میں ہیں،اگرچہ ان کی تعداد اب کافی کم ہوگئی ہے۔ حکومت پاکستان ان تمام بےوسیلہ افراد کی مدد اور اعانت کر رہی ہے،اس میںUNHCR کا تعاون بہت قابلِ قدر ہے۔ بین الاقوامی سطح پر مہاجرین کےحقوق کےتحفظ کےلیےقوانین میںاصلاح اور بہتری کاعمل جاری رہنا چاہیے۔ آئی پی ایس جیسےعلمی ادارےاس کام میں اہم رہنمائی فراہم کر سکتےہیں۔
اسلامی یونیورسٹی کےاستاد پروفیسر محمد منیر نےبین الاقوامی قانون برائےمہاجرین اور اس حوالہ سےاسلامی شریعت کےرہنما اصولوںپر ر وشنی ڈالی اور قرار دیا کہ شریعت کی رہنمائی صرف مسلمانوں کےلیےنہیںتمام انسانیت کےلیےہےاور مروجہ قانون کےمقابلےمیں اس کی تعلیمات زیادہ جامع ہیں۔
صدرِ مجلس جناب ایس ایم ظفر نےکہا کہ بین الاقوامی قانون کو مزید بہتر بنانےکی ضرورت ہے۔ اس کےساتھ ساتھ اس قانون میں’’مہاجر‘‘ کی تعریف کوزیادہ متعین اور واضح کرنےکی ضرورت ہے۔ دنیا پر یہ واضح کرنےکی ضرورت بھی ہےکہ اسلام کو صرف اس کےاصولوں پر جانچا جائے۔ مسلمانوں کےکسی گروہ کےغلط طرزعمل کو اسلام کو بدنام کرنےکا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
رستم شاہ مہمنددوسری علمی نشست سےخطاب کرتےہوئےافغان مہاجرین کےانتظامی امور کےسابق سربراہ اور افغانستان میں پاکستان کےسابق سفیر جناب رستم شاہ مہمند نےکہا کہ پاکستان نےدنیا میں سب سےبڑی تعداد میںموجود مہاجرین کو تقریباً تیس سال سےزیادہ عرصےتک پناہ دی ہے۔ افغان مہاجرین ہماری معیشت اور معاشرت کا حصہ بن گئےہیں۔ ان کی وجہ سےپاکستان میںکبھی کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیںہوا۔ ان کی بہت کم تعداد جرائم میںملوث رہی ہے۔ افغانستا ن میںبیرونی مداخلت ختم ہو اور حالات نارمل ہوںتب ہی یہ لوگ واپس جا سکتےہیں۔ انہیںزبردستی نہیںبھیجا جا سکتا۔ UNHCR اورWHOنےمہاجرین کی خدمات کےحوالہ سےقابل قدر کام کیا ہے۔
لاء کالج پشاور کےپرنسپل پروفیسر عدنان سرور نےکہا کہ افغان مہاجرین کی مخالفت محض سیاسی وجوہات کی بناء پر کی جاتی ہے۔ حقیقت میںان کا کردار ہماری معیشت کےلیےبہت اچھا رہا ہے۔
افغانستان میںپاکستان کےسابق سفیر جناب ایاز وزیرنےکہا کہ افغان مہاجرین کو پاکستان کےسفیر کےطورپر استعمال کیا جائے۔ یہ ہمارےلیےبڑا اثاثہ ثابت ہو سکتےہیں۔ انہیںعزت و احترام دیا جائےان کےبچوںکی بہتر تعلیم اور تربیت کا اہتمام کیا جائے،یہی افغانستان کا مستقبل ہے۔
فاروق ستاروفاقی وزیر اور ایم کیوایم کےرہنما جناب فاروق ستار نےکہا کہ مہاجرین کےبارےمیںپاکستانیوںکی آراء ملی جلی ہیں۔ جغرافیائی دُوری کےباوجود کراچی مہاجرین کےمسئلہ سےسب سےزیادہ متاثر شہر ہے۔ منشیات اور دہشت گردی کےجرائم میںملوث لوگوںکی بڑی تعداد افغان اور مذہبی شناخت رکھنےوالےطبقات میںسےہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہےکہ کسی جرم کا الزام پورےطبقہ پرنہیںلگایا جا سکتا۔
پاکستان میںافغانستان کےسفارتی نمائندےنےکہا کہ افغان مہاجرین نےپاکستان کےلیےکبھی مسائل پیدا نہیں کیے،تخریبی سرگرمیوںمیںوہ عموماً ملوت نہیںہیں۔ پاکستان میںیہ سمجھا جاتا ہےکہ افغان مہاجرین کی گرفتاریاںہوتی ہیںاس کےردعمل میںتخریب کاری کےواقعات ہوتےہیں۔ حقیقت میںایسا نہیںہے۔ تحقیقات کےبعد بےگناہ گرفتار شدگان کو رہا کر دیا جاتا ہےلیکن اس کی خبریںشائع نہیںہوتی ہیں۔ افغان عوام پاکستان کےعوام اور حکومت کےشکرگزار ہیںکہ اس نےمہاجرین کی میزبانی کی ہے۔
اسد درانیدوسری نشست کےچیئرمین آئی ایس آئی کےسابق ڈائریکٹر جنرل  جناب اسد درانی نےکہا کہ افغان مہاجرین کےبارےمیں آغاز میںپاکستان کی پالیسی اور انتظامی امور بہت مثالی رہےہیںان میںافغان مہاجرین کا بہترین رویہ اور طرزعمل بھی یکساںاہم ہے۔ ۱۱/۹ کےبعد پیش آنےوالےواقعات نےہمارےلیےحالات کوپیچیدہ بنادیا ہے۔
پاکستان میںUNHCR کےنمائندےجناب مینگیشا کبیدی نےکہا کہ مہاجرین کےلیے۱۹۵۱ء کا کنونشن جو بین الاقوامی قانون کا درجہ رکھتا ہےاس میںاصلاح کی تجاویز زیرغور ہیں۔ یہ حقیقت ہےکہ اسلامی قانون مظلوم اور متاثرین کےلیےزیادہ ہمدردانہ اور مشفقانہ ہے۔ اس قانون سےرہنمائی لی جانی چاہیے۔ افغان مہاجرین مینگیشا کبیدیکےحوالےسےانہوںنےکہا کہ ضرورت اس امر کی ہےکہ حکومت پاکستان،حکومت افغانستان اور UNHCR مل کر ایک سہ فریقی قانونی فریم ورک بنائیںتاکہ اس انسانی مسئلہ سےبہتر طورپر نمٹا جا سکے۔ انہوںنےوضاحت کی کہ سردموسم کی وجہ سےمہاجرین کو واپس بھیجنےکاسلسلہ عملی طورپر بند کر دیا گیا ہے۔ انہوںنےکہا کہ مہاجرین (Refugees) اور اندرونِ ملک بےگھر افراد(IDPs) میںفرق کو ملحوظ رکھاجائے،IDPs کےمسئلہ سےنمٹنا مکمل طورپر ریاستی حکومت کا کام ہے،یہ مسئلہ UNHCR کےدائرہ کار سےباہر ہے۔ سرحدوںکی مینجمنٹ اوریہاںلوگوںکی آمد ورفت کےنظام کو بہتر بنانےکی ضرورت ہے۔
خورشید احمد انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کےچیئرمین پروفیسرخورشیداحمد نےکہا کہ مکالمہ اور مذا کرات کا عمل ایک جاری عمل ہےاسےکبھی بند نہیںہونا چاہیے۔ شریعت نےجو رہنمائی دی ہےوہ صرف مسلمانوںکےلیےنہیںبلکہ پوری انسانیت کےلیےہے۔ اسےمحدود نہیںکرناچاہیے۔ شریعت مغرب کےنقطہ نظر سےصرف قانون کا نام نہیںہےبلکہ یہ ایک طرز زندگی ہے۔ اس میںعقیدہ،عبادات اور معاملات سب شامل ہیں۔
انہوںنےکہا کہ عالمی طاقتوںنےجرم کی صورت حال سےنمٹنےکےلیےمعروف طریقےاختیار کرنےکےبجائےاسےجنگ کی صورتحال فرض کرتےہوئےجنگ کےطریقہ اختیار کر لیےہیںجس سےعالمی امن تباہ ہورہا ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے