عالمی مالیاتی بحران پر ایک نظر

globalization

عالمی مالیاتی بحران پر ایک نظر

 

 

 

 

 

 

[ ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا اسلامک ڈ و یلپمینٹ بینک کے تحت جدہ میں قائم اسلامک ریسرچ اینڈ ٹرینگ انسٹی ٹیوٹ کے ریسرچ ایڈوائیزر ہیں۔ اسلامی معاشیات پر علمی و تحقیقی کام کے حوالہ سے وہ نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ وہ ۲ مارچ ۲۰۱۰ کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں تشریف لائے اور یہاں کے ریسرچ اسٹاف کے ساتھ ایک نشست میں شرکت کی۔ اس نشست کا مقصد عالمی مالیاتی بحران کو سمجھنے کی کوشش اور ڈاکٹر چھاپرا کے ذاتی تحقیقی تجربات سے استفادہ کرنا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے پیچیدہ عالمی معاشی مسئلہ کو آسان زبان میں بیان کیا اور شرکا کے سوالات کے جوابا ت د یے۔ اس مفید علمی کاوش کو ہم استفادہ عام کے لیے یہاں پیش کر رہے ہیں۔ ]

اس وقت دُنیا جس عالمی مالیاتی بحران سے دوچار ہے اس کا سب سے بڑا سبب قرض کا پھیلاؤہے۔یعنی قرض کا بہت زیادہ پھیلنا اوربغیر حکمت کے پھیلنا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بینکاری کے روایتی نظام میں کوئی نظم و ضبط نہیں ہے۔ تنظیم نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ نفع و نقصان میں شراکت نہیں ہے۔ اس بات کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کالجوں اور سکولوں میں امتحان نہ ہوں اور کسی کو ناکام ہونے کا ڈر نہ ہو تو کتنے طالبعلم ہوں گے جو محنت سے پڑھیں گے؟ نفع و نقصان یا کامیابی و ناکامی ایسی چیز یں ہیں جو انسان کومحنت پر مجبورکرتی ہیں۔ اگر ایک تاجر کو پتہ ہو کہ بہر صورت اسے نفع ہی ہوناہے تو وہ زیادہ محنت کیوں کرے گا؟ نفع کی طلب اورنقصان کے ڈرہی کی وجہ سے تاجر محنت کرتا ہے، اپنے سامان کے معیار کو بہتر بناتا ہے، لوگوں سے اچھا معاملہ کرتا ہے اس طرح اس کے نفع میں اضافہ ہوتا ہے۔ بینکاری نظام میں بھی یہی صورت ہے کہ اگر بینکوں کو پتہ ہو کہ انہیں کسی طور نقصان نہیں ہو سکتا تو قرض دیے چلے جانے سے انہیں فرق نہیں پڑتا۔ قرض دینے میں بے تحاشہ اضافہ اسی طرح سے ہوا ہے۔ اگر کسی بنک کو یہ خدشہ ہوکہ دیے جانے والے قرض کی واپسی یقینی نہیں ہے تو قرض دینے میں وہ بہت محتاط ہوگا اور اچھی طرح چھان بین کرنے کے بعد قرض دے گا۔لیکن اگر اسے پتہ ہوکہ اسے کسی صورت نقصان نہیں ہوسکتاتو وہ ہر ایرے غیرے کو بلا تامل قرض دے دے گا۔ چنانچہ قرض میں اتنی شدّت سے اضافہ ہونے کی ایک وجہ تو نفع و نقصان میں شراکت نہ ہونا تھی دوسری وجہ یہ تھی کہ بعض اختر اعات ایسی آئیں جنہوں نے بنکوں کو خطرے سے بالکل دُور کردیا۔ یہ(قرض نادہندہ کا متبادل بدل) Credit Default Swapsکا اجراء تھا۔ یہ اصل میں ایک قسم کی انشورنس (بیمہ) ہے۔ قرض دینے کے بعد اسے خرید لیا جاتا ہے۔ اگر نادہندگی ہوتی ہے یعنی قرض لینے والا، قرض واپس نہیں کرتا تو اس انشورنس سے آپ کو پیسے مل جائیں گے اور آپ نقصان سے بچ جائیں گے۔ جو ادارے Credit Default Swapsبیچتے ہیں وہ بھی اگر اچھی طرح سے چھان بین اور تحقیق کرتے جیسا کہ انشورنس کمپنیاں کرتی ہیں تو بھی بحران کی شدت میں کمی واقع ہوسکتی تھی۔ مثلاًاگر آپ اپنی گاڑی کا بیمہ کراتے ہیں تو انشورنس کمپنی آپ سے کئی چیزیں طلب کرتی ہے۔ مثلاًیہ کہ آپ کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہے یا نہیں، گاڑی کی رجسٹریشن ہوئی ہے یا نہیں وغیرہ۔ اسی طرح زندگی کے بیمے کے لیے بھی چھان بین کی جاتی ہے کہ آپ کوکوئی ایسا دیرینہ مرض تو لاحق نہیں جس سے آپ کی موت بہت جلدواقع ہوسکتی ہو۔ ایسی صورت میں آپ کا بیمہ نہیں کیا جاتا۔

"اگر کسی بنک کو یہ خدشہ ہوکہ دیے جانے والے قرض کی واپسی یقینی نہیں ہے تو قرض دینے میں وہ بہت محتاط ہوگا اور اچھی طرح چھان بین کرنے کے بعد قرض دے گا۔لیکن اگر اسے پتہ ہوکہ اسے کسی صورت نقصان نہیں ہوسکتاتو وہ ہر ایرے غیرے کو بلا تامل قرض دے دے گا”
لیکن بینکاری نظام میں یہ ہوا کہ بغیر کسی چھان بین اور تحقیق کے Swapsدیے جاتے رہے۔ اسی طرح بغیر تحقیق کے قرض دینے میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا رہا۔ دوسری طرف ساکھ کا اندازہ لگانے والی ایجنسیوں (Credit Rating Agencies)نے بنکوں کو اچھے سرٹیفیکیٹس دیے جس کی وجہ سے لوگوں کو مزید اطمینان ہوگیا کہ انہیں کوئی مشکل پیش نہ آئے گی۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہ ہوا۔
ایک دوسرا مسئلہ یہ ہوا کہ اگریہ Swapsبیچنا ہی مقصود ہوں تو صرف قرض خواہ (Creditor) ہی اسے خریدنے کا مجاز ہو جیسے کاریا پراپرٹی کی انشورنس ہوتی ہے، اسی طرح سے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے قرض دے کر اپنے آپ کو محفوظ کرلیا کہ اگر کوئی نادہندہ ہوتو آپ نقصان سے دوچار نہ ہوں۔ لیکن دیکھیے کار کی انشورنس کا معاملہ یہ ہے کہ اگر گاڑی کی انشورنس کروانا چاہتے ہیں تو آپ ہی یہ بیمہ کراسکتے ہیں یہ نہیں ہوسکتا کہ بیسیوں اور آدمی آپ کی گاڑی کی انشورنس خرید لیں اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر خدانخواستہ حادثہ ہو تو انشورنس کمپنیوں کو ان تمام لوگوں کو معاوضہ دینا ہوگا جنہوں نے انشورنس کرائی ہوگئی اس طرح سے تو انشورنس کمپنی بالکل ختم ہو کر رہ جائے گی۔ بینکاری نظام میں بعینہ یہی ہوا کہ جس نے قرض دیا ہے جس نے قرض لیا ہے اور دوسرے بے شمار لوگوں نے وہ Credit Default Swapsخرید لیے۔ جب معیشت کے عروج کا زمانہ تھا، اس میں روز افزوں ترقی ہو رہی تھی اور نادہندگی کی شرح بہت کم تھی تو جن کمپنیوں نے یہ Swapsبیچے تھے اُن کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ اگر ایک ہزارSwapsبیچے گئے اور ان میں سے بیس پچیس افراد کو معاوضہ بھی دینا پڑگیا تو کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ چونکہ بے شمار لوگوں نے یہ Swapsخرید ے تھے لہٰذا اس میں جوئے کا عنصر داخل ہوگیا کہ ایک آدمی کو قرض دیا گیا، نہ صرف قرض خواہ نے بلکہ بہت سے دوسرے افراد نے بھی Swaps خرید لیے۔ بیسیوں افراد کو معاوضہ دینے کا عمل معیشت کے عروج کے زمانہ میں تو چلتا رہا لیکن جیسے ہی معیشت میں زوال آیا تو بینکاری نظام میں بہت بڑی مشکل آگئی۔
"لیکن بینکاری نظام میں یہ ہوا کہ بغیر کسی چھان بین اور تحقیق کے Swapsدیے جاتے رہے۔ اسی طرح بغیر تحقیق کے قرض دینے میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا رہا۔ دوسری طرف ساکھ کا اندازہ لگانے والی ایجنسیوں (Credit Rating Agencies)نے بنکوں کو اچھے سرٹیفیکیٹس دیے جس کی وجہ سے لوگوں کو مزید اطمینان ہوگیا کہ انہیں کوئی مشکل پیش نہ آئے گی۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہ ہوا۔”
مارکیٹ میں مختلف قسم کے Swaps(بدل /متبادل) دستیاب ہوتے ہیں مثلاًغیر ملکی کرنسی کا بدل(Foreign Exchange Swaps)یا نادہندگی کا بدل (Credit Default Swaps) جب یہ بحران شروع ہوا تو تقریباً 656ٹریلین ڈالرز کے Swapsیا derivatives (وہ مقدار جو کسی دوسری مقدار کی شرح تبدل کی پیمائش کرے) مارکیٹ میں واجب الادا تھے۔ اس رقم کا دُنیا کے (Gross Domestic Product (GDP(جوکہ 57ٹریلین ڈالرز تھا)سے موازنہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتنی بڑی رقم تھی جو واجب الادا تھی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پوری دُنیا کے GDPسے تقریباً 12گُنا زیادہ یہ رقم تھی۔ یقینی بات ہے کہ جب معیشت پر کوئی مشکل آئے گی تو یہ رقم مسئلہ پیدا کرے گی۔ اس مسئلے کی سنگینی میں اضافہ اس طرح سے بھی ہو ا کہ ان Swapsاور derivativesکی فروخت پانچ ، چھ کمپنیوں کے ہاتھ میں مرتکز تھی دوسرے الفاظ میں ان میں سے ہر کمپنی اپنے اوپر بہت زیادہ خدشات لاد رہی تھی کہ جب ذراسی مشکل آئی تو اس کے بعد ناکام ہونے کا خطرہ موجودہ تھا اور یہی ہوا کہ جب معیشت بیٹھنے لگی تو یہ کمپنیاں اپنے وعدوں کو پورا نہ کر سکیں اور مشکلات پیدا ہوگئیں۔

 

"اس میں جوئے کا عنصر داخل ہوگیا کہ ایک آدمی کو قرض دیا گیا، نہ صرف قرض خواہ نے بلکہ بہت سے دوسرے افراد نے بھی Swaps خرید لیے۔ بیسیوں افراد کو معاوضہ دینے کا عمل معیشت کے عروج کے زمانہ میں تو چلتا رہا لیکن جیسے ہی معیشت میں زوال آیا تو بینکاری نظام میں بہت بڑی مشکل آگئی۔”

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے