وفاقی بجٹ 2023-24

وفاقی بجٹ 2023-24

موجودہ بجٹ کے اعدادوشمار ان مسلسل گمراہ کن پالیسیوں کی عکاسی کرتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں معاشی اور سماجی صورتحال انتہائی خراب ہوچکی ہے۔ یہ صورتحال اسٹیٹ بینک کی انتہائی قابل اعتراض پالیسی کی وجہ سے پیدا ہوئی، جو مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے نام پر اتنی زیادہ شرح سود کو برقرار رکھتی ہے۔ یہ پالیسی نہ صرف مہنگائی کو روکنے میں ناکام رہی ہیں بلکہ اس کے نتیجے میں قیمتی سرکاری فنڈز کا بے انتہاء ضیاع بھی ہورہا ہے۔


وفاقی بجٹ 2023-24

قانت خلیل اللہ

موجودہ بجٹ کے اعدادوشمار ان مسلسل گمراہ کن پالیسیوں کی عکاسی کرتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں معاشی اور سماجی صورتحال انتہائی خراب ہوچکی ہے۔ وفاقی حکومت کے 12،160 ارب روپے کے متوقع ریونیو میں سے صوبوں کو 5،276 ارب کا حصہ مختص کرنے کے بعد، باقی رقم سود کی لاگت کو پورا کرنے کے لیے بھی کافی نہیں ہے  ۔ یہ صورتحال اسٹیٹ بینک کی انتہائی قابل اعتراض پالیسی کی وجہ سے پیدا ہوئی، جو مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے نام پر اتنی زیادہ شرح سود کو برقرار رکھتی ہے۔ نتیجتاً، پاکستان کو اپنی آمدنی کا 60 فیصد سود کی لاگت کے طور پر ادا کرنا ہے، جو دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ ہے۔ یہ پالیسی نہ صرف  مہنگائی کو روکنے میں ناکام رہی ہیں بلکہ  اس کے نتیجے میں قیمتی سرکاری فنڈز کا بے انتہاء ضیاع  ہورہا ہے۔

لوگ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ سود کی رقم باہر جا رہی ہے ، جبکہ 90 فیصد سود پاکستان کے اندر بینکس ، ان کے ڈپوزٹرز اور حکومت کے بانڈز خریدنے والوں کو دیا جا رہا ہے۔ اور اسکی رقم اسٹیٹ بینک کے پالیسی شرح سود پر منحصر ہوتی ہے ۔ پاکستان کا اندرنی قرضہ تقریباّ 33 ہزار ارب روپے ہے اوراس پر 20 فیصد سود کی ادائگی 6600 ارب ہوگی ۔ جس تیزی سے ہمارا قرض بڑھ رہا ہے، مستقبل میں ٹیکس کی وصولی کا تقریباً 90 فیصد سود میں جائے گا۔ ایک ایسی بوری جس میں اتنا بڑا سوراخ ہے کہ اسمیں کچھ بھی نہیں رکے گا ۔ ہم کرپشن، حکومتی اداروں کے اخراجات اور  نا اہلی پرتو بہت بات کرتے ہیں لیکن یہ معاملہ ان سب چیزوں سے بہت بڑا اورخطرناک ہے، اسلیے بحیثیت قوم، ہمیں اسٹیٹ بینک کی ایسی احمقانہ مالیاتی پالیسی کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے، جس نے نہ صرف قیمتی سرکاری فنڈز کو ضائع کیا بلکہ معیشت کو بھی نقصان پہنچایا، برآمدات میں رکاوٹیں کھڑی کیں اور روزگار کے مواقع کو کم کیا۔

سال کے شروع سے ہی منفی بجٹ کے باوجود، وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں حیران کن طور پر 30-35 فیصد اضافہ کیا ہے۔ سماجی تحفظ اور بنیادی ڈھانچے (انفراسٹرکچر) کی ترقی کے ذریعے عوام کی بہتری کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے بجائے، حکومت،  ٹیکس فنڈز اور قرضوں کی رقم کوغیر موثر طریقے سے استعمال  کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ملک کے آٹھ سے دس کروڑ غریب  لوگوں کیلیے  بجٹ کا صرف 3 فیصد رکھا گیا ہے جو فی کس  صرف 300 روپے ماہانہ بنتا ہے- حکومت کی ان ترجیحات پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔

حکومت  بالواسطہ ٹیکسوں سے اپنی آمدنی کا 50% سے زیادہ حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جو معاشرے کے غریب طبقات کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ بقیہ کمی کو پورا کرنے کے لیے، وہ 7،573 ارب روپے کے مزید قرضے لیں گے، جس سے  افراط زر اور مہنگائی کی صورت میں غریب عوام پر بےتہاشہ پوشیدہ ٹیکس عائد ہوگا۔ اس بجٹ کو پچھلے سالوں کے بجٹ کی طرح صرف غیر سنجیدہ اور نقصان دہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے