‘کوویڈ-۱۹: عالمی چیلنج، قومی ردعمل-تزویراتی میدان میں ابھرتے رجحانات اور پاکستان’ (پانچواں اجلاس)

‘کوویڈ-۱۹: عالمی چیلنج، قومی ردعمل-تزویراتی میدان میں ابھرتے رجحانات اور پاکستان’ (پانچواں اجلاس)

پاکستان کو نئے عالمی نظام میں جگہ بنانے کے لیے حکمت عملی تشکیل دینا ہو گی۔

 said-nazir-1

پاکستان کو نئے عالمی نظام میں جگہ بنانے کے لیے حکمت عملی تشکیل دینا ہو گی۔

کوویڈ- ۱۹ کابحران پالیسیوں اور حکمت عملیوں پر نظر ثانی، بقا کے تصورات اور نظریات کی تنظیم نو پر مبنی ایک نئے عالمی نظام کو جنم دے گا۔ ایک تجزیہ کار کے مطابق ، پاکستان اس تبدیلی سے غافل رہنے کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ اسے اس تبدیل ہوتی دنیا کے ساتھ خود کو منسلک کرنا پڑے گا اور کاروبار کو  تیزی سے تبدیل کر کے مستقبل کے کاروبار ی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا پڑے گا۔

ان خیالات کا اظہار ‘ تزویراتی میدان میں ابھرتے  رجحانات اور پاکستان’  کے عنوان سے ہونے والے ایک ویبینار میں کیا گیا جسے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (  IPS) نے اپنی ویبینار  سیریز ‘کوویڈ – ۱۹: عالمی چیلنج ، قومی رد عمل ‘ کے ضمن میں ۲۱ اپریل ۲۰۲۰ء کو منعقد کیا ۔  اس نشست سے سیکورٹی کے تجزیہ کار بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) سید نذیر مہمند نے خطاب کیا اور سابق سیکرٹری خزانہ اور آئی پی ایس نیشنل اکیڈمک کونسل کے ممبر ڈاکٹر وقار مسعود خان اور ایگزیکٹو صدر آئی پی ایس خالد رحمان نے مشترکہ طور پر اس کی صدارت کی۔

شرکاء میں سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ آئی پی ایس ایمبیسیڈر (ر) تجمل الطاف اور سابق سیکرٹری وزارت پانی و بجلی مرزا حامد حسن شامل تھے۔

اسپیکر نے کوویڈ- ۱۹ کو ایک غیر ریاستی اداکار قرار دیا جو انسان ساختہ یا فطری ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات آئندہ بھی ہو سکتے ہیں۔ لہذا پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے تجربات اور ردعمل کی صلاحیتوں سے سبق سیکھے اور اپنے ماحول کے مطابق حکمت عملی مرتب کرے۔

انہوں نے جوابی آپشنز اور حکمت عملی پر مبنی منصوبوں کا خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ صحت کے لیے نئی حکمت عملی وضع کر کے بجٹ میں اس کے لیے رقم مختص کی جائے جس میں انسانی زندگی کی دیکھ بھال، علاج اور اس کے تحفظ کو اولیت کا درجہ حاصل ہو۔ تحقیقی مراکز، ادویات اور الیکٹرو میڈیکل آلات کی مقامی تیاری اور طبی سہولیات میں فطری وصف کی شمولیت صحت سے متعلق تزویراتی حکمت عملی کا حصہ ہونے چاہییں۔ فی الحال یہ دنیا کی اولین ترجیحات ہیں اور پاکستان کی بھی ہونی چاہییں۔

انہوں نے کہا کہ ایسے خطرات کا پتہ لگانے اور انہیں روکنے کے لیے ملک کو اچھی طرح سے لیس ہونا چاہیے۔ اس کے لیے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کو زیادہ مضبوط اور وسیع البنیاد بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ دیکھا گیا ہے کہ صوبوں جیسے بڑے انتظامی یونٹ اس طرح کے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے زیادہ عملی ، متحرک یا ذمہ دار نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ چھوٹے یونٹ یا انتظامی ادارے عملی کارکردگی میں زیادہ بہتر ہیں اور ان کی سوچ درست اہداف پر مبنی ہوتی ہے۔

ان کا موقف تھا کہ اس طرح کی صورتحال کو سنبھالنے کے لئے ٹیکنوکریٹس ، ماہرین ، سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کا امتزاج ہونا چاہیے تاکہ کسی بحران کے دوران فیصلہ لینے والا ایک ادارہ غالب نہ ہو۔

نذیر نے سماجی شعبوں ، شہری اور دیہی منصوبہ بندی ، انتظامی ترتیب اور بحران سے متعلق انتظام و انصرام کے لیے مائیکرو اور میکرو سطح پر حکمت عملی طے کرنے کے لیے شماریاتی سروے کی بھی سفارش کی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ڈیزاسٹر مینیجمنٹ، وسائل کے اختصاص اور اہداف پر مبنی حکمت عملی وضع کرنے کے لیے خطرات کی پروفائلنگ بھی کروائی جائے۔

انہوں نے کہا کہ صنعتی بنیادوں کو نئے سرے سے استوار کرنا چاہیے تاکہ انہیں ضرورت کے مطابق ڈھالا جا سکے اور دوہرے اور تہرے مقاصد کو انجام دینے کے قابل بنایا جا سکے۔ اس طرح موجودہ وباء جیسی کسی صورت حال میں  ضرورت کے مطابق ان کی پیداوار کو ایک سے دوسری پیداوار میں تبدیل کرنے کی تکنیک قابل عمل ہو سکے۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ زراعت پر مبنی معیشت کے لیے بنجر زمینوں اور صحراؤں کو زراعت کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت پر مبنی صنعت کو فوڈ سکیورٹی ،پروسیسنگ اور تحفظ کے لیے وسیع کیا جائے۔

نذیر نے تجویز پیش کی کہ حکومت تھنک ٹینکس کو موقع فراہم کرے کہ وہ سیمیناروں کے ذریعے اپنی تحقیقات اور مطالعات کو فیصلہ سازوں کے سامنے پیش کریں تاکہ ان کا بہتر طور پر موازنہ کیا جا سکے اور پالیسی کے پیرامیٹرز اور ہدایات وضع کی جاسکیں۔ اس کی اہمیت خصوصی طور پر اس لیے بھی اہم ہے کہ مستقبل میں نئے نصاب ہوں گے جبکہ تحقیق اور صحت کی دیکھ بھال کو اولین ترجیح ملے گی۔

تجزیہ کار کی رائے تھی کہ پاکستان کا رخ اب سیکورٹی اسٹیٹ کی بجائے فلاح و بہبود کی ریاست کی طرف بڑھانا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سائبر، ہائبرڈ اور پروپیگنڈہ وار نے جنگ کا چہرہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیکورٹی کا نکتہ نظراب مادی اور نظریاتی پہلووں سے تبدیل ہو کر ہائبرڈ، مائیکروبائیولوجیکل اور انسانی جسم کے نرم و نازک وجود جیسے غیر محفوظ محاذوں پر جارحیت کی صورت اختیار کر رہا ہے۔

اگر ملک اس جہت سے حملوں کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے تو یہ حماقت ہوگی۔ جب تک خطرے کا احساس نہ ہو حکومت اس طرح کے خطرات کو ختم کرنے کے لیے مطلوبہ آلات حاصل کیے بغیر مناسب ردعمل کی صلاحیت پیدا نہیں کرسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ملک کو مضبوط حکمت عملی تیار کرنا ہوگی تاکہ جب اس طرح کے خطرات کا سامنا ہو تو اس کے پاس پالیسی آپشنزہوں۔

ماہرتجزیہ کار نے وضاحت کی کہ مختصر، شدید اور کثیر جہتی محدود جنگیں لڑنے کے لیے مستقبل کی حکمت عملیوں اور نظریات کو نئے سرے سے تشکیل دینا ہو گا جس کے لیے ہوشیار، پھرتیلی اورچھوٹی فوجوں کی ضرورت ہوگی۔ ان کو بہت بڑے لاجسٹک اسٹیمینا کی ضرورت نہیں ہوگی لہذا دفاعی اخراجات خود بخود کم ہوجائیں گے۔ جنگ سے بچنے کے لیے اس طرح کی پاکستان کی تزویراتی سمت غیر روایتی مزاحمت پر استوار ہونی چاہیے۔ مزاحمت کے اس پہلو کوآگے بڑھانا چاہیے اور افراد اور جنگی ہتھیاروں اور آلات کی بجائے سرحدوں کے ساتھ، بالخصوص ہندوستان کے ساتھ، رکاوٹیں کھڑی کرنے میں ان کا مستحکم کردار ہونا چاہیے۔ اس سے ہندوستان رکاوٹوں پر مبنی اس حکمت عملی اور متعدد دفاعی خطوط کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے فوجی اخراجات میں بھی اضافے پر مجبور ہوگا۔

انہوں نے کورونا وائرس جیسی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہنرمند، پھرتیلی اور تعداد میں چھوٹی فوج کو بھی ریزرو کے طور پرتشکیل دینے کا مشورہ دیا۔

انہوں نے اقوام متحدہ کے زیراہتمام ایک عالمی حکومت قائم کرنے کی تجویز پیش کی تاکہ تمام ممالک مشترکہ طور پر وبائی امراض کا مقابلہ موثر اور بھرپورطریقے سے کرسکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ملک جو کورونا وائرس کے خلاف تحقیق، حفاظتی اقدامات، انسان کی صحت کے لیے درکار آلات اوراس شعبے میں مہارت پر زیادہ سرمایہ لگائے گا وہ آئندہ کسی بھی بحران میں زندہ رہ سکے گا۔

نذیر نے کہا کہ ہندوستان اور اسرائیل مسلمان آبادیوں پرلاک ڈاؤن کی صورت پیدا کر کے انسانیت کے خلاف ایک جرم اورالمیے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ پاکستان کو کشمیر میں جاری لاک ڈاؤن کو اجاگر کرنے اور دنیا کے سامنے اس کے مختلف پہلوؤں کو لانے کے لیے ایک مناسب بیانیہ اختیار کرنا چاہیے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ ہندوستان کسی واردات کا مرتکب ہو سکتا ہے کیونکہ ایک محدود جنگ ہی اس کے لیے ایک آپشن ہے۔

ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) تجمل الطاف نے کہا کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کا صحت کا نظام وبائی بیماری سے پیدا ہونے والے شدید دباو کو برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنگ اور دفاع کی بجائے ان ممالک کو عوام کی فلاح و بہبود اپنی ترجیح بنانا چاہیے۔

حامد نے کثیر جہتی حملوں کا سامنا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی اور اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ آئندہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں مصنوعی ذہانت، سائبر وارفیئر اور روبوٹکس  جسمانی وسائل سے زیادہ اہم ہوجائیں  گے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے