گوادر میں سی ایس آر کے کے اقدامات (دی گیٹ وے ٹو سی پیک)

گوادر میں سی ایس آر کے کے اقدامات (دی گیٹ وے ٹو سی پیک)

گوادر کی ترقی کیلئے چینی کمپنیوں کے اقدامات قابلِ ستائش ہیں: مقررین

 CSR Initiatives in Gwadar

گوادر کی ترقی کیلئے چینی کمپنیوں کے اقدامات قابلِ ستائش ہیں: مقررین

 گوادر میں کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی کے تحت چائنا اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی اور دوسری چینی کمپنیوں کی جانب سے کئے گئے اقدامات قابل ستائش اور درست سمت کی جانب اہم قدم ہیں۔ تاہم ان منصوبوں کی طویل المدّت کامیابی اور انہیں فائدہ مند بنانے کے لئے مقامی کمیونیٹیز کے ساتھ موثر بات چیت اور مثبت وابستگی اہمیت کی حامل ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو مربوط اقتصادی و معاشی ترقی کی حکمت عملی کے لئے ایک میکینزم تیار کرنا چاہیے اور سی پیک کے حوالے سے گوادر کے مکینوں کی توقعات اور امنگوں کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔

ان خیالات کا اظہار مقررین نے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز(آئی پی ایس)اسلام آباد اور یونیورسٹی آف گوادر کی جانب سے 18-19 مئ 2022 کو ”گوادر میں سی ایس آر کے کے اقدامات (دی گیٹ وے ٹو سی پیک)“کے عنوان سے منعقد ہونے والے سمینار میں کیا۔ تزویراتی اہمیت کے حامل پورٹ سٹی میں منعقد ہونے والی دوروزہ میڈیا کنونشن اور گول میز کانفرنس کیلئےچائنا اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی، گوادر پورٹ اتھارٹی، اور گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے تعاون کیا تھا۔

CSR Initiatives in Gwadar 2

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین گودار پورٹ اتھارٹی نصیر خان کاشانی نے سی ایس آر کے ذریعے مقامی باشندوں کو متحد کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ”ہمیں انفراسٹرکچر کی تعمیرمیں مقامی باشندوں کو ترجیح دینی چاہیے۔پینے کا پانی اور بجلی گوادر میں حکام کی پہلی ترجیح ہے“۔ ان کا کہنا تھا کہ12 لاکھ گیلن کا ڈی سیلینیشن پلانٹ 6 سے8 ماہ میں فعال ہو جائے گا اور اس سے مقامی باشندوں کو پینے کا پانی ملے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پاک چائنا ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ، جس کا حال ہی میں افتتاح کیا گیا ہے، مقامی نوجوانوں کو تین سال کی ٹریننگ دے گا جو چینی دوستوں کی جانب سے ایک بڑا سماجی تعاون ہے۔  انہوں نے مزید بتایا کہ چینی حکام نے گوادر کے غریب ترین افراد کو بجلی کی فراہمی کے لئے تین ہزار سولر پینل بھی فراہم کیے ہیں۔

اس موقع پر کانفرنس کے کلیدی خطاب میں چیئرمین چائنا اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی ژانگ باؤ ژانگ نے گوادر میں اپنے7 سالہ قیام کے دوران پیش آنے والے تجربات کے بارے میں بتایا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ”ہم اس بات سے آگاہ ہیں کہ مقامی باشندوں کی توقعات کو پورا کرنے کے لئے گوادر مزید تیزی سے ترقی کرنے کا مستحق ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ گزشتہ 7 برس کے دوران اس نے بہت ترقی کی۔“  انہوں نے گوادر کے حوصلہ افزاء امکانات کی3 وجوہات بتائیں، گوادر کے لوگوں کا تعاون، اس کے وسیع وسائل اور اس کا تزویراتی مقام۔

ژانگ باؤ ژانگ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ گوادر کے مقامی باشندے اپنے جائز مطالبات کے تحت عزت اور ترقی چاہتے ہیں۔  اس موقع پر چائنا اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی کے مارکیٹنگ کنٹری ہیڈ شہزاد سلطان نے سی ایس آر اقدامات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ”ہم ہر سال 20طلبہ کو اسکالر شپس پر چین بھیج رہے ہیں۔ ہم یہاں گزشتہ پانچ برسوں سے ایک پرائمری اسکول چلارہے ہیں اور جلد ہی ایک سیکنڈری اسکول بھی تعمیر کریں گے۔  اب تک چھ ہزار سے زائد سولر پینلز گوادر کے لوگوں میں تقسیم کیے جاچکے ہیں اور پانچ لاکھ پودے لگائے جاچکے ہیں۔

 اس موقع پر چیئر مین آئ پی ایس خالد رحمان نے سی ایس آر  کے تصور اور مقامی افراد کی زندگی بہتر بنانے والے عوامل کو اُجا گر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایسی تجاویز دینی چاہئیں کہ جن میں مسائل کا حل پیش کیا گیا ہو۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مثبت تبدیلی اور گورننس میں بہتری سے گوادر کے لوگوں کی زندگی میں تبدیلی آئے گی۔ سی ایس آر سرگرمیوں کا مقصد منافع کا حصہ خرچ کرنا نہیں بلکہ اس کا تعلق ایک ایسا ماحول تخلیق کرنے سے ہے جو کسی بھی اعتبار سے معاشرے کے لئے نقصان دہ نہ ہو۔

 یونیورسٹی آف گوادر کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹرعبد الرزاق صابر نے اپنے استقبالیہ خطاب میں علاقے میں چیلنجز کی شناخت کے لئے آئ پی ایس کے اقدامات کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے کو واپس دینا کارپوریٹ سیکٹر کی ایک بڑی ذمہ داری ہے۔  انسانی وسائل کی ترقی حکومت اور نجی شعبے کی سب سے بڑی ترجیح ہونی چاہیے۔  چونکہ اس بندرگاہ کی تعمیر و ترقی کے بعد گوادر پھیل رہا ہے لہذا طلبہ کے تبادلے کے پروگرام کے ذریعے چین کے تجربے اور مہارت سے سیکھنا اہم ہے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کی تربیت کرنی چاہیے تاکہ وہ گوادر کا ایک مفید عنصر بن سکیں۔  انہوں نے کہا کہ سی ایس آر کی مقامی تناظر میں توضیح کرنی چاہیے اور CSRاقدامات کے ذریعے لوگوں کے اصل اور بنیادی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مقامی کمیونٹی اور سول سوسائٹی کو شامل کرنے سے مقامی دانش اور شرکت کے نتیجے میں بہتر منصوبہ بندی، موزوں حل اور بہتر عمل درآمد سامنے آسکتا ہے۔

اس موقع پر رفاہ یونیورسٹی کے ڈاکٹر راشد آفتا ب نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ شواہد پر مبنی مواد شیئر کرتے ہوئے مقامی افراد کے تحفظات پر توجہ دینی چاہیے۔

وزارت پلاننگ، ڈیولپمنٹ اینڈ اسپیشل انیشیٹوز کے مشیر برائے میری ٹائم افیئرز جواد اختر کھوکھر نے مختلف ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں تفصیلاً بتایا اور گوادر میں اب تک 2.1 ارب ڈالرز کے سی پیک روجیکٹس پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ اب تک 314 لین ڈالرز کے 3منصوبے مکمل ہوچکے ہیں۔ ان منصوبوں میں گوادر اسمارٹ پورٹ سٹی ماسٹر پلان، گوادر پورٹ اور فری زون فیز I کا فزیکل انفرا سٹرکچر اور پاک چائنا ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹیٹیوٹ شامل ہیں۔

دیگر 1.44 ارب ڈالرز مالیت کے 7منصوبوں پر کام جاری ہے۔  ان میں ایسٹ بے ایکسپریس وے جو 98%مکمل ہوچکا ہے، فریش واٹر ٹریٹمنٹ کے لئے سہولتیں، فراہمی و تقسیم آب، جو 70%مکمل ہوچکا ہے، نیو گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ، پاک چائنا فرینڈ شپ ہاسپٹل گوادر، گوادر فری زون فیز II کا انفرا سٹرکچر،  300میگا واٹ کا کوئلے سے چلنے والا پاور پلانٹ اور 1.2ملین گیلن کا ڈی سیلینیشن پلانٹ شامل ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مختصر المدّت حکمت عملی کے تحت جاری ترجیحی منصوبہ جات میں گوادر کو تین ماہ میں پانی اور پانچ ماہ میں بجلی کی فراہمی، ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کو گوادر  میں ایک تہائی کارگوز کی درآمد کی اجازت اور ایم – 8  موٹر وے کی تکمیل شامل ہے۔ طویل المدّت حکمت عملی پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت گوادر بندرگاہ پر ایل این جی اور پی او ایل رمینلز کی تعمیر اور پورٹ کے فیز 2 کی توسیع کے لئے بجلی، پانی اور گیس کی دستیابی یقینی بنانا چاہتی ہے۔

اس موقع پر رجسٹرار یونیورسٹی آف گوادر دولت خان اور گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے انویسٹمنٹس کے سربراہ ارسلان علی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اس موقع پر رجسٹرار یونیورسٹی آف گوادر دولت خان اور گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے انویسٹمنٹس کے سربراہ ارسلان علی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے