دینی مدارس – تبدیلی کے رجحانات

student

دینی مدارس – تبدیلی کے رجحانات

دینی مدارس کیا ہیں؟ ان کا تعلیمی نظام کیا ہے؟ پاکستان میںرائےعامہ اور انسانی رویوںکی تشکیل میںان کا کردار کیا ہے؟ ان کےنظام اور نصاب کی نوعیت کیا ہے؟ کیا ان میںتبدیلی کا کوئی خودکارنظام موجود ہے؟ اور انہیں تبدیل کرتےہوئےکس طرح ’’عصری ضروریات‘‘ سےہم آہنگ کیا جا سکتا ہے؟ مدارس کےبارےمیں اس طرح کےسوالات اگرچہ نئےنہیں ہیں تاہم گزشتہ چند سالوںمیں ملکی او رغیر ملکی ذرائع ابلاغ میں ان حوالوں سےگفتگو میںغیر معمولی طورپر اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب حکومتی سطح پر مدارس میں اصلاحات کےعنوان سےمتعدد اقدامات تجویز کیےجاتےرہےہیں جن میں دباؤ اور ترغیبات دونوں طرح کےاقدامات شامل ہیں۔ اس ضمن میں بیرونی دنیا سےمدارس کی اصلاح کےمطالبات اور تعاون کی پیش کشوں کی اطلاعات بھی آتی رہی ہیں۔ بعض بین الاقوامی اداروں نےتحقیقی رپورٹیں بھی شائع کی ہیں۔

قومی اور بین الاقوامی سطح پر مدارس میں اس قدر دلچسپی اور سیاسی، علمی اور ابلاغی دائروں میں ان پر اس قدر توجہ، دباؤ اور ترغیبات کےکیا کوئی اثرات ہوئےہیں؟ ایک تاثر یہ ہےکہ مدرسہ اپنی نوعیت اور فطرت کےاعتبار سےجامد ہےاور عمومی طور پر کسی تبدیلی کےلیےتیار نہیںہے۔ اس حوالہ سےدلیل یہ دی جاتی ہےکہ اگرچہ مدارس کےمختلف وفاقوں کی نمائندہ تنظیم (اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ) اور حکومت کےدرمیان مسلسل رابطہ ہےاور ان کےدرمیان مذا کرات کےمتعدد ادوار ہوتےرہےہیں تاہم جزوی طور پر بعض معاملات میں اتفاق کےباوجود مدارس اپنےتعلیمی کردار، نظام ونصاب اور مالیات کےحوالہ سےحکومت کو براہ راست کوئی کردار دینےکےلیےتیار نہیںہیں۔ ان امور میںاپنی خودمختاری کو وہ اپنا اہم ترین اثاثہ سمجھتےہیںاور اسی لیےان پر کوئی compromise ان کےخیال میںاپنےوجود کی نفی ہے۔
چنانچہ تبدیلی کا اگر یہ تصور سامنےرکھا جائےکہ مدارس اپنی خودمختاری سےدستبردار ہوکر حکومتی ترجیحات اور فیصلوںکےمطابق اپنےنظام کو چلائیںگےتو بلاشبہ ایسا نہیںہوا اور مستقبل قریب میںبھی اس نہج پر تبدیلی کےامکانات نہ ہونےکےبرابر ہیں۔
دوسری جانب یہ ایک حقیقت ہےکہ مجموعی طور پر مخالفانہ فضا کےباوجود مدارس کی تعداد میںاضافہ ہورہا ہےاورعام تاثر کےبرعکس مدارس کا دعویٰ ہےکہ وہ تعداد ہی نہیںمعیار اور سرگرمی کےاعتبار سےبھی اندرونی طورپر تبدیلی اور ارتقاء کےایک مسلسل عمل سےگزر رہےہیں۔اگر ایسا ہےتو یہ تبدیلی کیا ہےاور کس طرح عمل میںآ رہی ہے،اس کےپس منظر میںکون سےداخلی یا بیرونی عوامل ہیں؟ اس صورت حال کو درست طور پر سمجھ لیا جائےتو اس اہم ادارےکی تشکیل نو کےلیےآئندہ لائحہ عمل کی تیاری میںمدد ملےگی۔زیرنظر تحقیق اسی ضرورت کو پورا کرنےکی کوشش ہے۔
اس تحقیق میںپاکستان کی۵۶ بڑی دینی جامعات کےذمہ داران سےملاقاتوںاور ان جامعات کےبراہ راست مشاہدےکےذریعہ وہاںجاری تعلیمی عمل اور ان میںآنےوالی تبدیلیوںکےرجحانات کو سمجھنےکی کوشش کی گئی ہے۔ بڑی دینی جامعات کی بنیاد پر نتائج اخذ کرنےکی اس مشق کےپس منظر میںیہ حقیقت ہےکہ بڑی دینی جامعات رجحان ساز اداروںکی حیثیت رکھتی ہیںاوریہاںآنےوالی تبدیلیاںجلد یا بدیر دیگر عام مدارس میںبھی رائج ہونےکا یقینی امکان ہے۔
مدارس کےنظام سےواقف لوگ اس حقیقت سےآگاہ ہیںکہ مدارس میںبنیادی اہمیت استاد اور مادر علمی کی ہے۔ مدارس میںداخلہ کی ایک اہم وجہ استاد کی شہرت ،اس سےتعارف اور رابطہ ہوتا ہے۔ یہاںطلبہ کی شخصیت اور ان کےرویوںپر استاد کی گہری چھاپ ہوتی ہے۔ مدرسہ کےماحول میںاس کےلیےشعوری طور پر اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ یہی طلبہ تعلیم سےفارغ ہونےکےبعد پہلےسےموجود مدارس میںتدریس کےفرائض انجام دیتےہیںیا نئےمدارس کا آغاز کرتےہیں۔ چنانچہ جو روایات اور رجحانات آج کی بڑی دینی جامعات اور ان کےذمہ داران میںواضح ہورہےہیںان کےبارےمیںکافی امکان یہ ہےکہ وہ مستقبل کےتعلیمی عمل میںزیادہ ٹھوس شکل میںاور بتدریج دیگر دینی اداروںمیںبھی رائج ہوںگے۔ یہ عمل محض طویل المیعاد عرصہ میںہی نہیںبلکہ روزمرہ معاملات میںبھی،زندگی کےکسی بھی دوسرےشعبہ کی طرح مدارس میںبھی یوںجاری رہتا ہےکہ چھوٹےچھوٹےمدارس کےذمہ داران اپنی مادر علمی سےفکری طور پر و ابستہ رہنےکےساتھ ساتھ اپنےعلاقہ میںموجود بڑی دینی جامعات اور ان کےذمہ دار ’’اکابرین‘‘ کی جانب رہنمائی کےلیےدیکھتےہیںاوروہاںرائج طریقوںاور آنےوالی تبدیلیوںسےاستفادہ کرنےکی کوشش کرتےہیں۔ موجودہ فضا میںجب مدارس اپنی بقاء کےحوالہ سےخدشات محسوس کر رہےہوںباہم ربط وتعلق اورایک دوسرےسےرہنمائی لینےکا یہ عمل اور بھی تیزہو گیا ہے۔
اسی تناظر میں مطالعہ کےلیےبڑی دینی جامعات کےانتخاب میںان کی اثراندازی کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ چنانچہ ان کی اصل اہمیت اساتذہ اور طلبہ کی تعداد کےاعتبار سےبڑا ہونا نہیںبلکہ اپنےعلمی مقام اور اثرات کےاعتبار سےنمایاںہونا ہے۔ نیز اس انتخاب میںیہ خیال بھی رکھا گیا ہےکہ ایک جانب تمام مسالک کی بڑی بڑی دینی جامعات شامل ہوںتو دوسری جانب ان جامعات کی یہ حیثیت بھی ہوکہ وہ ایک وسیع علاقےمیںاپنی حد تک نمایاںحیثیت رکھتی ہوں۔ چنانچہ فطری طور پر اس انتخاب میںمختلف علاقوںمیںقائدانہ کردار ادا کرنےوالی جامعات شامل ہوگئی ہیں۔ عموماً ان ہی دینی جامعات کےذمہ داران اس وقت مدارس کےمختلف وفاقوںکی قیادت کا فریضہ بھی سرانجام دےرہےہیں۔
مطالعہ کےلیےمنتخب دینی جامعات کےذمہ داران سےان کی جامعہ میں ہی ملاقات کےبعد تفصیلی طور پر انٹرویو کیا گیا ہے۔ انٹرویو ایک متعین سوالنامہ کی بنیاد پر کیا گیا تاہم موقع کی مناسبت سےاضافی سوالات کی بھی گنجائش رکھی گئی۔ جبکہ انٹرویو لینےوالی ٹیم نےبراہ راست بھی جامعات میں جاری تعلیمی عمل کا مشاہدہ کرتےہوئےاپنےمشاہدات کو تحریر کیا ہے۔واضح رہےکہ یہ انٹرویو عموماً اداروںکےسربراہان سےلیےگئےہیںتاہم بعض اداروں میں سربراہ ادارہ کی عدم موجودگی یا ان کی مصروفیت کےباعث ان کےنائب یا ان کےنامزد کردہ کسی سینئر معاون سےسوالات کےجوابات حاصل کیےگئےہیں۔
انٹرویو اور مشاہدات کی بناء پر مدارس کےذمہ داران کی سوچ ،اندازِ فکر اور مدرسہ کےاندر ان کےاقدامات کی جو تصویر بنتی ہےاسےدوحصوںمیںپیش کیا گیا ہے۔ پہلےحصہ میںعمومی تجزیہ اور تبصرہ کےساتھ ساتھ حاصل شدہ معلومات ومشاہدات کا خلاصہ علیحدہ علیحدہ عنوانات کےتحت دیا گیا ہےجبکہ دوسرےحصہ میں انٹرویو میں دیےجانےوالےجوابات کو ان کےاصل الفاظ میں نقل کیا گیا ہے۔

 

ماخذ: "دینی مدارس – تبدیلی کے رجحانات” از خالد رحمٰن، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد

نوعیت: کتاب کا ایک باب

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے