ایران کا جوہری پروگرام ۔معاہدہ، امکانات او رمضمرات

iran1up

ایران کا جوہری پروگرام ۔معاہدہ، امکانات او رمضمرات

 ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے مذاکرات مشرق وسطیٰ میں بدلتے ہوئے جیو سٹریٹیجک محرکات کی بناء پر کئی برس تک التوا کا شکار رہ سکتے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار ماہرین نے ’’ایران کا جوہری پروگرام: معاہدہ، امکانات اور مضمرات‘‘ کے عنوان سے  انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی ا سٹڈیز اسلام آباد کے زیر اہتمام 24ستمبر 2014کو ہونے والے سیمینار میں کیا۔
    اس سیمینار سے ڈاکٹر نذیر حسین، ایسوسی ایٹ پروفیسر ، اسکول آف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد نے خطاب کیا جب کہ نظامت کے فرائض دفاعی تجزیہ نگار اور آئی پی ایس کی نیشنل اکیڈمک کونسل کے رکن ائیر کموڈور (ریٹائرڈ)  خالد اقبال نے انجام دیے۔ سیمینار میں سول اور ملٹری سے تعلق رکھنے والے  اہل دانش کی ایک قابل لحاظ تعداد  موجود تھی۔

ماہرین کے مطابق ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مسائل کا قلیل یا درمیانی مدت کے اندر مستقل حل نکلنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ تہران کے پانچ عالمی طاقتوں اور جرمنی  (P5+1)کے ساتھ ہونے والے  عبوری  معاہدے کی بناء پر مذاکرات میں پیدا ہونے والی طوالت کا نتیجہ دو فریقوں کے مابین دیرپا سمجھوتے کی صورت میں برآمد ہونے کی بمشکل ہی توقع کی جاسکتی ہے۔

ڈاکٹر نذیر حسین نے یہ نکتہ اجاگر کیا کہ یہ مذاکرات بہت اہم مضمرات کے حامل تھے مگر امریکہ کی جانب سے دولت اسلامیہ (داعش)  کے خلاف حالیہ مہم کے نتیجے میں حالات نے جو نیا رخ اختیار کیا ہے اس نے خطے کے جیو سٹریٹیجک محرکات کو  تبدیل کر دیا ہے۔ اس لیے جوہری پروگرام پر مذاکرات مسلسل طوالت کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ان کی رائے میں ان مسائل کے حل کا راز مشرق وسطیٰ کو جوہری ہتھیاروں سے پاک ایسا خطہ قرار دینے میں ہے جہاں تمام ممالک جوہری  اسلحہ سے اجتناب کریں جبکہ جوہری توانائی تک رسائی سب کے  لیے مساوی بنیاد پر ہونی چاہیے۔

ڈاکٹرنذیر کے خیال میں ایران کے جوہری پروگرام سے خطے کے کسی ملک کو بھی خطرہ لاحق نہیں ہے۔[ایران کے مقتدر حلقوں کے مطابق ]  ایران نے گذشتہ 500برسوں کے دوران مشرقِ وسطیٰ کے کسی بھی ملک پر حملہ نہیں کیا۔

ایئر کموڈور (ریٹائرڈ) خالد اقبال  نے کہا کہ  افسوس کا مقام یہ ہے کہ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے حوالے سے عالمی برادری نے یکساں پالیسی اپنانے کے بجائے مخصوص ممالک کو ہدف بنانے کی حکمت عملی اختیار کی ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنے نظریئے کے حق میں نیو کلیئر سپلائرز گروپ (NSG) سے بھارت کے استثناء کی مثال پیش کی ۔

سیمینار میں شرکت کرنے والوں کا خیال تھا کہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) جیسے عالمی ادارے اپنی ساکھ کھو چکے ہیں کیونکہ وہ طاقت ور ممالک کی حمایت کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

 

نوعیت:     روداد سیمینار
تاریخ:    ۲۴ ستمبر ۲۰۱۴ء

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے