نیٹو فورسز کا حملہ اور پاکستان کا ردعمل

نیٹو فورسز کا حملہ اور پاکستان کا ردعمل

 

 

[نومبر ۲۰۱۱ء کے آخری ہفتہ میں پاکستان کی ایک سرحدی چوکی پر امریکی ہیلی کاپٹر کی بلا جواز بمباری پاک امریکہ تعلقات کو ایک نیا موڑ دینے کا باعث بن گئی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل  جناب خالد رحمٰن نے اس مضمون میں اس مسئلہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔]

 

۲۶اور۲۷نومبر کی درمیانی رات پاکستان کے قبائلی علاقے مہمند میں سلالہ چیک پوسٹ پرجوکچھ ہوا اسے اب ایک ہفتہ سے زائد گزر چکا ہے ۔ واقعہ کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اس سے یہ واضح ہے کہ

  • پاکستان کے ۲۴ فوجی پاکستان کی اپنی سرزمین پرمارے گئے۔ جس جگہ حملہ ہوا وہ بارڈر سے کم از کم ۳ کلو میٹر اندر ہے۔
  • حملہ کرنے والے ہیلی کاپٹرز امریکی قیادت میں مصروف عمل ایساف فورسز سے تعلق رکھتے تھے اور ان ہیلی کاپٹرز کو جنگی طیاروں کی مدد بھی حاصل تھی۔
  • ستمبر۲۰۱۱ء میں پاکستانی فوج نے اس علاقے میں آپریشن مکمل کرلیا تھا اور یہ ایک معلوم حقیقت تھی کہ علاقے کوشدت پسندوں سے خالی کرالیاگیاہے۔
  • حملہ کی کارروائی کم ازکم دوگھنٹے اور بعض اطلاعات کے مطابق ۳گھنٹے جاری رہی ۔اس دوران پاکستان کی جانب سے نیٹو فوجی کمانڈکے ساتھ فوری رابطہ ہوچکا تھا اس کے باوجود کارروائی جاری رہی اور ایک بار ختم ہونے کے کم وبیش ۲گھنٹہ بعد دوبارہ شروع ہوگئی۔

ان تفصیلات کی روشنی میں چند اہم سوالات یہ ہیں کہ کیا جو کچھ ہوا بین الاقوامی قانون کے مطابق تھا؟ پاکستان کے علاقہ میں کوئی کارروائی ایساف کے مینڈیٹ میں شامل ہے؟ پاکستان اور امریکہ کے درمیان WoT کے حوالہ سے جاری تعاون کی شرائط میں ایسی کوئی گنجائش نکلتی ہے؟ کیا ایساف، افغانستان اورپاکستان کے مشترکہ بارڈرز کے حوالہ سے موجود چار کنونشنز کی پابندی کی گئی؟اورکیاپاکستان اور امریکہ کے درمیان افغانستان کے حوالہ سے جاری کشیدگی کے تناظر میں اس اقدام کے کوئی مثبت اثرات ہوسکتے ہیں؟ ظاہر ہے ان تمام سوالات کے جواب نفی میں ہیں۔ اس تناظر میں پاکستانی ردعمل ،امریکہ کے جوابی ردعمل اور بین الاقوامی سطح پر جاری مکالمہ کو پیش نظر رکھا جائے تو آج کی دنیا کی ٹریجڈی اورعالمی نظام کی کمزوری ایک بار پھر نمایاں ہوجاتی ہے۔
دنیا میں کسی بھی جگہ بین الاقوامی قانون کی کسی ایسی خلاف ورزی پر صدمہ، افسوس اور غم و غصہ کے اظہار کے ساتھ ساتھ کارروائی کرنے والوں کی کھلے عام مذمت ، حملہ کا نشانہ بننے والے کی جانب سے جوابی کارروائی کے حق اور عالمی اداروں کی جانب سے کسی فوری اقدام کی توقع تعجب کا باعث نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن یہ ایک سنگین مذاق ہے کہ اس معاملہ میں تعجب کا باعث حملہ نہیں بلکہ اس حملہ پر پاکستان کا ردعمل بنا ہے۔ بجاطورپر اس کی ایک وجہ یہ قراردی جاسکتی ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کی خودمختاری کو پائمال کیاگیا ہو۔ اس سے قبل پاکستان کی سرزمین پر کم وبیش ۳۰۰ ڈرون حملوں کے علاوہ نیٹوفورسز کی جانب سے براہ راست کارروائی کے بھی کم ازکم ۶واقعات ہوچکے ہیں جن میں۷۲پاکستانی فوجی ہلاک اور۲۵۰ سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔لیکن ایک موقع کے علاوہ جب پاکستان نے نیٹو سپلائیز معطل کیں امریکی قیادت کی جانب سے کسی بھی موقع پر پاکستان سے معافی تک نہ مانگی گئی۔ موجودہ واقعہ کے بارے میں امریکہ کی جانب سے افسوس کا اظہار اورتحقیقات کرانے کے وعدہ کی اس اعتبار سے کوئی اہمیت نہیں کہ ماضی کے کم از کم ۳واقعات پر مشترکہ انکوائریاں بے نتیجہ رہی ہیں اورامریکہ نے اس سے محض وقت گذاری کاکام لیا ہے۔
ان تمام زیادتیوں کے باوجود لگتا یہی ہے کہ پاکستان کی جانب سے امریکہ کے ساتھ وسیع تر تعاون جاری رکھنے کے عمل کو پاکستان کی کمزوری سمجھتے ہوئے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ اسے کسی غیر معمولی عالمی ردعمل کا بھی سامنا نہ کرنا پڑے گا امریکہ نے بون کانفرنس سے محض چند روز قبل اس کارروائی کا جان بوجھ کر ارتکاب کرایا ۔بہت سے تجزیہ نگاروں کے خیال میں ایک جانب اس کا مقصد پاکستانی قیادت کے ردعمل کو ، جو گزشتہ کچھ عرصہ سے امریکہ کے ساتھ تعاون میں سختی کی جانب مائل ہے ، جانچنا ہے اور دوسری جانب اسے یہ باور کرانا ہے کہ اگر اس نے امریکہ کے ساتھ امریکی شرائط پر تعاون جاری رکھنے پرآمادگی ختم کی تو اسے کس نوعیت کے سنگین نتائج کا سامنا کرناپڑ سکتا ہے۔ بون کانفرنس اس آمادگی کو یقینی بنانے کا ایک موقع ہے جہاں سے ۲۰۱۴ء کے بعد کے افغانستان میں اپنے قیام کے لیے امریکہ عالمی تائید حاصل کرنا چاہتا ہے۔امریکی منصوبہ پر پاکستان کی تائید پاکستان کو اس پر عملدرآمدکا پابندکر دے گی خواہ وہ اس کے مفادات کے کتنے ہی خلاف کیوں نہ ہو۔اور پاکستان کاانکاردوسرے بہت سے ملکوں کو جواز فراہم کرے گا کہ اس منصوبہ کو پاکستان کے لئے قابل قبول بنانے پر بات کی جائے ۔
بہت سے لوگوں کا خیال یہ بھی ہے کہ اب جبکہ افغانستان میں جہاں دس سال کی بھر پور ملٹری کارروائی کے باوجود میدان جنگ کی حد تک امریکہ کے پاس آپشنز ختم ہوچکے ہیں اور دنیا بھر میں اسے حزیمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے وہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے پروپیگنڈا اور سیاسی سطح پر کوششوں کے ساتھ اس نوعیت کی ملٹری کارروائیوں کا مقصد پاکستان کو اشتعال دلاکراسے براہ راست افغانستان میں ملوث ہونے پر مجبور کرنا ہے۔ پاکستان کے اشتعال کی صورت میں ایسے حملوں کے مزید مواقع دستیاب ہوسکتے ہیں جن کو بنیاد بناکر پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں کو بھی ٹارگٹ کیا جاسکتا ہے جنہیں غیرمحفوظ قرار دینے کی پروپیگنڈہ مہم طویل عرصہ سے جاری ہے۔
پاکستان کے ابتدائی مرحلہ پر ہی سخت ردعمل نے بہرحال امریکی عزائم کی راہ میں کم ازکم فوری طورپر کئی رکاوٹیں پیدا کر دی ہیں۔ قومی سطح پر مؤقف کی فوری تشکیل اور قومی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں اس کی بروقت تشہیر نے پاکستان کے لیے عملی میدان میں پیش رفت کی راہ ہموار کی ۔ امریکی سفیر کو طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کرانے،نیٹو سپلائیز روکنے اور امریکہ کے زیرِاستعمال شمسی اےئربیس کو ، جسے امریکہ آنے والے دنوں میں ایران کے خلاف استعمال کرنے میں بھی دلچسپی رکھتاتھا ، خالی کرانے کے فوری اعلانات نے پاکستانی قیادت کو اپنے عوام کی جانب سے وہ تائید اور اعتماد فراہم کیا جو دس سالہ جنگ میں تعاون کے نتیجہ میں چار ہزار فوجیوں سمیت ۴۰ہزار سے زائد انسانی جانوں کی قربانی اور ۷۰ ارب ڈالر سے زائد مالی نقصانات اور انفراسٹرکچر کی تباہی کے باعث مسلسل متاثر ہورہاتھا۔ قومی سطح پر اس ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ دوست ممالک بالخصوص چین اور روس کی جانب سے امریکی حملوں کی مذمت میں تائیدی بیانات نے بھی وہ ماحول فراہم کیا جس میں پاکستانی قیادت نے بون کانفرنس کے بائیکاٹ کابھی اعلان کیا۔ جبکہ یکم دسمبرکو پاکستانی آرمی چیف کی جانب سے آئندہ کسی جنگی کارروائی کی صورت میں موقع پرموجود مقامی کمانڈرز کو جوابی کارروائی کا اختیار دینا بھی اسی اعتماد کی علامت ہے۔ایسا اختیار تو پاکستان کی مشرقی سرحد پر تعینات فوج کے پاس بھی نہیں ہے۔
افغانستان کی موجودہ صورتحال اور مسئلہ کے حل میں پاکستان کے امکانی کردار کے تناظر میں یہ علامتی اقدامات شاید فوری طورپر امریکہ کے لیے کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہ کریں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ علامتی اقدامات کا یہ سلسلہ اگر دراز ہوتو امریکہ کے لیے خطہ میں مشکلات بہت زیادہ بڑھ جائیں گی۔ اس ضمن میں فوری اہمیت کا مسئلہ بون کانفرنس ہے جس کے تین ستون (Pillars)امریکہ، افغانستان اورپاکستان ہیں اورپاکستان کی موثرشراکت کے بغیرعملی میدان میں کوئی بڑی کامیابی ممکن نہیں ہے جس کی وجہ افغانستان میں مزاحمت میں شریک مختلف عناصر کے بارے میں پاکستان کی معلومات اوران پرپاکستان کے کسی حدتک اثرانداز ہونے کی صلاحیت ہے۔ یہ صلاحیت اگرچہ ماضی کے مقابلہ میں بڑی حدتک متاثرہوئی ہے لیکن اب بھی کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔ کانفرنس میں عدم شرکت کے فیصلہ پر قائم رہنے کی صورت میں پاکستان کے لیے یہ غیر متوقع نہیں ہوناچاہیے کہ اس کانفرنس کی ناکامی کا ذمہ دار اسے قرار دے کر سفارتی تنہائی کا شکار کرنے کی کوششیں کی جائیں گی۔ درحقیقت اس وجہ سے بھی بون کانفرنس کے بائیکاٹ کے بارے میں قومی سطح پر یہ دوسرا نقطۂ نظر بھی موجود ہے کہ پاکستان کو اس موقع کواپنے ساتھ ہونے والی زیادتی اورامریکہ کی جارحیت کو بے نقاب کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے تھا۔
اس تناظر میں یہ سوال غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان کتنے دن تک اپنے دباؤ کو برقرار رکھ سکتا ہے اور دوسری جانب کس حد تک اس دباؤ کو برداشت کر سکتا ہے جو امریکہ اپنی سیاسی، سفارتکاری اور ابلاغی قوت کے ذریعہ پاکستان پر ڈال سکتا ہے۔ یوں یہ اس اعصابی جنگ کا ایک بہت اہم اورنازک مرحلہ ہے جو گزشتہ کچھ عرصہ، بالخصوص۲۰۱۱ء کے آغاز میں CIA ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کے ہا تھو ں دو پاکستانیوں کے قتل کے واقعہ اوراس کے بعد اسامہ بن لادن کی مبینہ رہائش گاہ پر امریکی حملہ کے بعد سے منظر عام پرآئی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ان واقعات سے پہلے دونوں ملکوں کے درمیان تناؤموجود نہیں تھا۔ درحقیقت ان واقعات نے پاکستانی قوم کے غم وغصہ میں اضافہ کیا اور دوسری جانب پاکستانی قیادت کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ امریکی قیادت میں جاری جنگ میں اپنے مفادات کی قربانی دے کر تعاون کے اپنے فیصلہ پر نظرثانی کی راہ ہموار کر سکے اور بتدریج امریکہ سے کچھ فاصلہ پیدا کرے۔ اس کالازمی فائدہ اسے قومی سطح پر یکجہتی و ہم آہنگی کی صورت میں حاصل ہوگاجو کسی بھی ملک کے لیے حقیقی قوت کا باعث ہوتاہے۔
۲۶ نومبر کے واقعہ پرپاکستانی ردعمل کو اس تناظر میں دیکھا جانا چاہیے کہ یہ امریکہ کے ساتھ مجبوری پر مبنی تعاون کے عمل کو بتدریج ختم کرنے اور تعاون کے فریم ورک کو دوٹوک اور ایسے تحریری انداز میں واضح کروانے کی کوششوں کا حصہ ہے جس میں پاکستان اپنے مقاصد کی قربانی دینے پر مجبور نہ ہو اور دوسری جانب داخلی سطح پر اس جنگ کے حوالہ سے قومی یکجہتی اور ہم آہنگی بڑھائی جائے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کی معاشی صورتحال کے پیش نظر امریکہ اپنے مقاصد کے لیے اس پرغیرمعمولی دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں ہے تاہم قومی ہم آہنگی اور موثر سفارتی وابلاغی حکمت عملی کے ذریعہ پاکستان کے لیے اس غیرمعمولی دباؤ کو برداشت کرنا ممکن ہوسکتا ہے جبکہ افغانستان میں موجود غیرملکی فوجوں کے لیے سپلائی کی بندش کے نتیجہ میں پڑنے والا دباؤ خود امریکہ کے لیے بھی طویل عرصہ تک برداشت کرنا ممکن نہ ہوگا۔
وسط ایشیا کے ملکوں کے حوالہ سے جن متبادل سپلائی روٹس کا ذکر عام طورپر کیا جاتا ہے وہ کاغذ پراوروقتی طورپر خواہ کتنے ہی قابل عمل نظر آتے ہوں غیرمعمولی طوالت،ناسازگارموسم، کئی گنا زیادہ مالیاتی اخراجات، سیکیورٹی کے مسائل اور سب سے بڑھ کر سیاسی طورپر بہت سی نئی پیچیدگیوں کی بناء پر مستقل انتظام کی حیثیت سے اس قدر آسان نہیں ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے روسی وزیرخارجہ کے اس بیان کو سامنے رکھنا چاہیے جس میں انہوں نے ان متبادل روٹس سے سپلائی جاری رکھنے کے عمل کو یورپ میں میزائلوں کی تنصیب روکنے سے مشروط کرنے کی جانب اشارہ کیا ہے۔ یوں بھی متبادل روٹس کے بارے میں رپورٹس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان سے سپلائی لے جانے والے کنٹینرز کی تعداد میں کوئی نمایاں کمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
اس تناظر میں پاکستان کی سرزمین پر ہونے والے اس حملہ اور اس پر ردعمل نے ایک نئے منظرنامہ کی بنیاد ڈال دی ہے۔ اس نئے منظرنامہ میں–کسی غیرمعمولی بلنڈر کے بغیر– پاکستان امریکہ تناؤ کا جنگ میں تبدیل ہونا تو خارج ازامکان نظر آتا ہے کیونکہ نہ پاکستان کے پاس اس کے لیے تیا ری ہے اور نہ ہی موجودہ حالات میں امریکہ کوئی نئی جنگی مہم شروع کرنے کے قابل ہے۔ تاہم یہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعاون کی نوعیت ، سطح اورشرائط پرضرور اثراندازہوگا۔ نوعیت سطح اور شرائط میں یہ تبدیلی کس فریق کے حق میں ہوگی اس کا انحصار اور بہت سے عوامل کے علاوہ اس بات پر ہے کہ کون سا فریق کس قدر مضبوط اعصاب کے ساتھ اورکتنے اچھے انداز میں اپنے کارڈز کو کھیلتا ہے۔
پاکستانی قیادت نے گزشتہ دس سال کے دوران امریکی جنگ میں جو تعاون کیا ہے اس نے اسے اپنے عوام سے دُور کیا ہے جنہیں امریکی عزائم اور اخلاص کے بارے میں کسی صورت اعتماد نہیں ہے۔ نئے حالات میں عوام کی مایوسی پرمبنی کوئی اقدام عوام اور اس کی فوجی وسیاسی قیادت کے درمیان فاصلہ بڑھابھی سکتا ہے جو ملک کے لیے بہت مہلک ہوگا اوراسے کم بھی کرسکتا ہے جیسا کہ اس وقت تک ہوا ہے۔ دوسری جانب امریکہ کے لیے بھی یہ ایک امتحان ہے کہ خطہ میں پاکستان کی حمایت و تعاون کے بغیر وہ اپنے اہداف کس طرح حاصل کر سکتا ہے جبکہ افغانستان مسئلہ کے حوالہ سے داخلی سطح پر اپنی رائے عامہ کو مطمئن کرنے، عالمی سطح پر اپنے امیج کوبچانے اورغیرمعمولی اقتصادی دباؤ کے پس منظر میں بڑھتے ہوئے جنگی اخراجات کاخاتمہ اس کی فوری ضروریات ہیں جسے اب تک حاصل کر نے میں اسے پاکستان کا بھر پور تعاون ملا ہے۔ یوں دونوں ملکوں کو اپنے نئے آغاز کی ضرورت ہے جس میں مقاصد، حکمت عملی اورTacticsکے بارے میں کوئی ابہام نہ ہو کہ کہاں مشترک ہیں اورکن دائروں میں فریقین کو ایک دوسرے سے توقعات نہیں کرنی چاہئیں۔
بظاہرمسئلہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تناؤ کا ہے لیکن درحقیقت پوری صورتحال عالمی برادری کا امتحان بھی ہے کہ کیا ناانصافی پر مبنی موجودہ نظام ہی جاری رہنا ہے جس میں "جس کی لاٹھی اس کی بھینس” کی بنیاد پر عالمی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی کی کھل کر مذمت بھی نہیں کی جاتی۔ خطہ کے ممالک ،بین الاقوامی قانون کے محافظ اداروں اور دنیا میں امن قائم کرنے کے ذمہ داروں کی اس امتحان میں ناکامی non state actors کا وہ خواب ہے جو ان کی آرزؤں کی تکمیل میں اب تک معاون ہے اوراس میں کوئی شک نہیں کہ آئندہ بھی ان کی قوت کا اصل انحصار اسی پرہے۔ پاکستانی رائے عامہ کے ایک بڑے حلقہ کی جانب سے اٹھایا جانے والا یہ سوال نظرانداز نہیں کیا جاسکتاکہ کیا پاکستانی فوج کے افغانستان میں قائم امریکی چوکیوں پر اس نوعیت کے کسی حملہ پر بھی دنیا کا ردعمل یہی ہوتا؟

تحریر: خالد رحمٰن

نوعیت: کسی واقعہ پر تبصرہ

تاریخ: ۴ دسمبر ، ۲۰۱۱

[اسی مسئلہ پر مصنف کا ایک اور تجزیہ "چائنا ڈیلی” ۱۳ دسمبر ۲۰۱۱ میں بھی شائع ہوا ہے۔  ملاحظہ کیجیے!]

http://www.chinadaily.com.cn/opinion/2011-12/13/content_14255242.htm

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے