صنفی مسائل پر پاکستان میں قانون سازی

مرونہ نذیر

صنفی مسائل پر پاکستان میں قانون سازی


مرونہ نذیر محترمہ مر ونہ نذیر  اور محترمہ آصفہ  امداد نے اپنے مقالے کا آغاز خواتین سے براہ راست متعلق صوبائی اور وفاقی قوانین کی فہرست سے کیا ۔کفالہ سے متعلق  بات کرتے ہو ئے انہوں نے کہا کہ یہ  اسلامی اصول  معاشرے کے تمام افراد کو سماجی تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور ہرایک کے لئے تحفظ کا ایک پائیدار نظام وضع کرتا ہے، جبکہ موجودہ قانون معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی ضروریات پو ری کرنے سے قاصر ہے ۔انہوں نے کہا کہ مسلم فیملی لا ء آرڈیننس مجریہ  1961 ء کا سیکشن ۹اس ضمن میں واحد قانونی دفعہ ہے اور وہ بھی بیوی اور بچوں کی لازمی بہبود  تک محدود ہے ۔تاہم یہ قانون مطلقہ عورت کی  عدت کے بعد اور بیوہ نیز  عمر رسیدہ خواتین اور جسمانی یا ذہنی طور پر معذور افراد کی فلاح وبہبود کے لئے کو ئی لائحہ عمل طے نہیں کرتا ۔
آئین کا آرٹیکل 37 ملازمت پیشہ خواتین کو دوران زچگی میسر سہولیات سے متعلق ہے ، اس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی سطح پر قانون کا اجراءکیا گیاہے۔ مغربی پاکستان قانون زچگی مجریہ1958ءایک وفاقی قانو ن ہے جو عورت کو زچگی الاوئنس کا مستحق قرار دیتے ہوئے متعلقہ ادارے کو ملازمہ خاتون کو زچگی سے  چھ ہفتےقبل اور بچے کی پیدائش کے چھ ہفتے بعد تک اسکی تنخواہ کے تناسب سے زچگی الاؤنس اداکرنے کا پابند بناتا ہے  ۔اسی طرح کان کن خواتین کے حقوق زچگی کا قانون مجریہ ۱۹۴۱ءاورملازمین کے سماجی تحفظ کا آرڈیننس مجریہ ۱۹۶۵ء محدود دائرہ کا ر کے حامل دوصوبائی قوانین تھے ۔ انہوں نے اس بات کا تذکرہ بھی کیا  کہ نجی اداروں میں ان قوانین کے نفاذ کے بارے میں سنجیدہ خدشات بھی موجودہیں ۔
ظفر الحسن جوئیہیہ بات بھی سامنے آئی کہ جاگیر داری نظام ان متعدد معاشرتی مسائل کی بڑی وجہ ہے  جن میں جہالت اور عورت کا استحصال نمایاں ترین ہیں۔ تاہم کوئی ا یسا مخصوص قانون موجود نہیں ہے جو جاگیرداری نظام اور اس کے تحت  ہونے والی کارروائیوں کی روک تھام  کر سکے ۔جاگیرداری نظام اور جاگیردارانہ کلچربیشتر سماج مخالف رسوم اور روایات کا سب سے بڑامحافظ اورپشیتبان ہے ۔ اس خدشے کے پیش نظر کہ  جائیداد عورت کے سسرالیوں کے پاس چلی جائے گی، جاگیر دارعورت کو جائیداد میں سے حصہ دینے کی کبھی اجازت نہیں دیتے۔حق تلفی کے اس رجحان کو کاروکاری جیسی رسومات کے ذریعے باقاعدہ شکل دے دی گئی ہے ۔
مقالہ نگاروں نے شرکاءکو بتایا کہ وراثت سے متعلقہ معاملات کو اسلامی قانون کے تحت حل کیا جاتا ہے ، تاہم اسکی دفعات مدون نہیں کی گئیں ۔ ملکی قانونی نظام میں اسلامی قانون کا استعمال صرف West Pakistan Personal Law (Shariat) Application Act ,1962 کے سیکشن 2 میں مذکور شرائط کی وجہ سےبرقرارہے۔ اس قانو ن نے وراثت سے متعلقہ   مروجہ قانون کی پہلے سے موجود صورتوں کو ختم کردیا ۔مروجہ قانو ن کے مطابق میت  کی رحلت کے بعد اسکی بیوہ تمام جائیداد کی محدود مالک بن جاتی تھی  ، اور موت یا دوسری شادی تک وہ اس رقم کو اپنے اور مرحوم  کے بچوں کے اخراجات کے لئے تصرف میں لا سکتی تھی۔ تاہم وہ اس جائیداد میں تغیر وتبدل نہیں کر سکتی تھی  ۔اسکے بعد جائیداد میت کے ورثاء کو واپس کر د ی جاتی،اور تمام قانونی حقدار اپنے اپنے حصے کے مالک بن جاتے ،اس صورت میں عورت  بذات خود کسی حصے کی حقدار نہ تھی۔
انہوں نے کہا کہ صاف شفاف اور مفصل نظام میں دست درازی کرتے ہوئے بہت ساری خیانتیں داخل کردی گئی ہیں ۔ساتھ ہی انہوں نے اسلام کے قانون  میراث  کی اصل روح کے مکمل موافق قانون سازی کی تجویز بھی دی۔
مقالے پر بحث کرتے ہو ئے گروپ کے ارکان نے ان اسباب پر خاصی تشویش کا اظہار کیا جن کے باعث جاگیردارانہ نظام کو اپنی تمام تر مذموم شکلوں کے ساتھ معاشرے میں جڑ پکڑنے اور پھنے  پھولنے کا موقع ملا  اورجب کہ کو ئی ایسا قانون بھی نہیں  ہے جوموجودہ صورت حال کو بدل سکے ۔
تعلیم کی کمی کا سوال بھی  زیر بحث رہا ۔بعض شرکاءکا خیا ل تھا کہ آ ئین کا آرٹیکل37 ریا ست سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ناخواندگی کے خاتمے کے لئے اقدامات کرے ، اور کم سے کم وقت میں ضروری ثانوی تعلیم کا مفت حصول ممکن بنائے ۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قانون سازی  کی بجائے حکومتی پالیسیوں اور انتظامی اقدامات کے ذریعے آ ئین میں متعین مقاصد کےحصو ل کو یقینی بنایا جائے ۔ تاہم بعض حضرات کے خیال میں اس موضو ع کی کئی دیگر صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ قانون سازی کے بعد حکو مت پابند ہو گی کہ وہ اس ضمن میں مثبت اقدامات کرے ۔البتہ یہ با ت بھی سامنے آ ئی کہ آئین کی  متعلقہ دفعات حکمت عملی کے اصولوں کے طور پر موجود ہیں جو ریاستی معاملات کو چلانے کے لئے اصولی رہنمائی کرتی ہیں  اورجنہیں عدالت کے ذریعے نافذ نہیں کیا جاسکتا۔اس لئے اس صورت حال میں ایک ممکن العمل قانو ن کی ضرورت ہے ۔
شرکا ءنے بعض ایسے شعبوں کی نشاندہی کی جن میں اس قانو ن ساز ی کے ذریعے ملک کی بڑی آبا دی کو تعلیم کی فراہمی میں مدد مل سکتی ہے ۔ جیسے ایک  خاص آ بادی کے حامل علاقے میں سکول کی لازمی سہولت  مہیا کرنا ، پہلے سے موجود سکولوں کو شام کےا وقات میں تعلیم بالغاں کے لئےاستعمال کرنا اور تعلیمی منصوبوں  کو کامیاب کرنے کے لئے بڑے کاروباری حضرات  کو اپنے کاروبار کے علاقے میں سرمایہ تعلیم کی مد میں خرچ کرنے کی ترغیب دینا ۔ ساتھ ہی اس بات کی اہمیت بھی واضح کی گئی کہ ایک پڑھا لکھا معاشرہ ہی اس پختہ خیالی کا مظاہرہ کر سکتا ہے جو معاشرے کے ہر فرد کے حقوق کی پاسداری کے لیے ضروری ہے، اور  یہی تعلیم مرد اور عورت کو معاشر ے میں اپنا کردار اداکرنے کا اہل بنا سکتی ہے ۔
یہ تجویز بھی سامنے آ ئی کہ زچگی کے معاملات کو صرف ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل تک محدود نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ اسے شہری ، دیہاتی، ملازمت پیشہ اور گھریلوہر طر ح کی خواتین کے مسائل کے تنا ظر میں دیکھا اور حل کیا جانا چاہیے ، اس بات کی سفارش بھی کی گئی کہ گھریلوتنازعات متبادل طریقہ کار کے تحت مناسب انداز میں حل کیے جاسکتے ہیں ۔نیز اس بات کی ترغیب  دی گئی کہ وراثت سے متعلقہ مسائل کو لوگوں کے عقائد کے مطابق حل کیا جاناچاہیے۔ یہ طریقہ کار روایت اور قانون میں مطابقت پیدا کرنے میں مدد دے سکتا ہے ۔
اختتامی گفتگو کرتے ہوئے جناب خالد رحمن نے کہا کہ بہت سارے انفرادی اور اجتماعی مسائل کے حل کے حوالے سے ہر معاشرے کا اپنا ایک ضابطہ ہو تا ہے ۔ اس طرح کے معاملات میں قانون کی مداخلت نہ تو مطلوب ہے اور نہ ہی قابل تعریف ، کیونکہ عوامی نوعیت کے مسائل میں قانون کی مداخلت مزید مشکلات کا باعث بنتی ہے ۔انہو ں نے اس بات پر زور دیا کہ اس طرح کی صورتحال میں ردعمل غیر متوازن نہیں ہو نا چاہیے ۔معاشرے کا حقیقت پسندانہ مطالعہ کرتے ہوئے حالات کے مثبت اور منفی ہر دو طرح کے پہلوؤں کا ادراک اور پیش آ مدہ مسائل کی وسعت اور انکی اہمیت کا اندازہ لگانا ضروری ہے ۔اس کے ذریعے سے ایسا مناسب حل نکالا جاسکتاہے جو نہ تو ممکنہ اور متعلقہ امور کونظر اندازکرے اور نہ ہی  اتنا سخت ہو کہ معمول کی  معاشرتی زندگی کو  متا ثر کرے ۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے