’ افریقہ کے ساتھ رابطے: پاکستان کے لیے امکانات اور مواقع ‘
ماہرین کی افریقی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں موجود خلاء کی نشاندہی، کثیرالجہتی تعلقات کو مضبوط اور مؤثر بنانے پر زور
ماہرین کی افریقی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں موجود خلاء کی نشاندہی، کثیرالجہتی تعلقات کو مضبوط اور مؤثر بنانے پر زور
پاکستان افریقی ممالک میں بھیجے گئےاپنے امن مِشنوں اور 1960 ء اور 70 کی دہائیوںمیں ان میں سے کئی ممالک کے حق خودارادیت کے لیے کی گئی جدوجہد میں سفارتی حمایت فراہم کرنے جیسے اقدامات سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ خطے میں اس معاشرتی ، سیاسی اور سفارتی تعلق کو دوبارہ بہتر کیاجائے اور اسکے ساتھ ساتھ معاشی میدان میں تعاون کی نئ راہیں تلاش کر کے باہمی فائدہ مند تعلقات کو بہتر اور مضبوط تر بنایاجا ئے۔
ان خیالات کا اظہار بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین نے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز(آئی پی ایس) ، اسلام آباد کے 22 ستمبر 2020 کو منعقد کردہ ایک گول میز اجلاس میں کیا جس کا عنوان تھا ’’ افریقہ کے ساتھ رابطے: پاکستان کے لیے امکانات اور مواقع ‘۔اجلاس کی صدارت آئی پی ایس کے ایگزیکٹو صدر خالد رحمٰن نے کی جبکہ اس سے خطاب کرنے والوں میں آئی پی ایس کے سینئر ایسوسی ایٹ ایمبیسیڈر (ر) تجمل الطاف، ایسٹ ویسٹ انسٹی ٹیوٹ انگلینڈکے سینئر محقق ڈاکٹر نجم عباس ، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ( NUST)کے شعبہ سنٹرفار انٹرنیشنل پیس اینڈ سٹیبلٹی ( CIPS )کے ایسوسی ایٹ ڈین تغرل یامین ، NUST میں شعبہ CIPS کےسربراہ ڈاکٹر باکرے نجم الدین ، اسسٹنٹ پروفیسر، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد ڈاکٹر بشیر بہار، CEO سنٹر فار ایشین افریقن سٹڈیز ( CAAS ) فرزانہ یعقوب ، آئی پی ایس کے جنرل مینیجر آپریشنز نوفل شارخ شامل اور ادارے کی تحقیقی ٹیم کے اراکین سید ندیم فرحت، کلثوم بلال اور عاصم احسان شامل تھے۔
ایمبیسیڈر (ر) تجمل الطاف ، جنہوں نے تین سال تک پاکستانی سفارت کار کی حیثیت سے مذکورہ خطے میں خدمات انجام دیں ، نے اپنی تقریر میں کہا کہ براعظم افریقہ متنوع قسم کے مواقع سے بھرپور جگہ ہے لیکن پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں موجود خامیوں کے باعث ان مواقع سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا ہے۔ سابق سفارت کار کے مطابق اس خطے کامجموعی جی ڈی پی 3.4 ٹریلین امریکی ڈالر سے زیادہ ہے اور اس کی درآمد مارکیٹ تقریباً 4500 بلین امریکی ڈالر ہے۔ پورا براعظم قدرتی وسائل سےبھرپور ہے جس میں تیل کے خام مال نے اسے تزویراتی اہمیت کا حامل بنا رکھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتیں براعظم میں اپنی جگہ بنانے کی پوری کوشش کر رہی ہیں۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ 1960 ء اور 70 کی دہائی میں بہت سارے افریقی ممالک کی آزادی کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دینے اور اس کے بعدایک عرصے تک ان کے ساتھ ٹھوس تعلقات رکھنے کے باوجود آہستہ آہستہ یہ تعلقات کم ہوتے گئے ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ جہاں ایک وقت افریقہ میں پاکستان کے 27 سفارتخانے تھے ، اب معاشی مجبوریوں کے باعث صرف 15 مشن رہ گئے ہیں جبکہ اس وقت صرف 12 افریقی ممالک کے سفارت خانے پاکستان میں کام کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر نجم الدین نے اس موضوع سے متعلق مختلف جغرافیائی وسیاسی، جغرافیائی و تزویراتی اور ثقافتی جہتوں پر روشنی ڈالی جبکہ انہوں نے بھی اس بات کو دہرایا کہ پاکستان اور افریقی ممالک کے مابین باہمی تعاون کے لیے بہت مواقع موجود ہیں۔ معاشی نقطہ نظر سے آغاز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دونوں خطوں کے درمیان 3 سے 4.6 بلین کی تجارت ہوسکتی ہے۔ اسپیکر کے مطابق’ افریقی آزاد تجارتی معاہدہ ‘میں پاکستان کے لیے بھی بہت بڑا موقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ گوادرکے ذریعے بھی نائیجیریا ، موزمبیق اور انگولا جیسے ممالک سے تیل کی تجارت کے باعث خاطر خواہ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے جبکہ ادویہ سازی اور انجینئرنگ کی صنعتیں بھی ایسے میدان ہیں جن پر گہری نظر رہنی چاہیے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ افریقی ممالک میں اعلی تعلیم کے مواقع ہموارکر نے کی بھی کوشش کرے اور اس پر اپنی حکمت عملی کو متنوع بنائے اوراس طرح سے وہ اس عمل کے ذریعےبراعظم کی معاشرتی ترقی میں بھی اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہو گا۔
ڈاکٹر یامین نے افریقہ میں پاکستان کے امن مشنوں کے ساتھ ساتھ افریقی ممالک میں پاکستانی تارکین وطن سے استفادہ کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے آج تک افریقہ میں 5000 سے زائد فوجیوں کو تعینات کیا ہے جو وہاں جاتے ہیں، اچھے تعلقات استوار کرتے ہیں، اسپتال، پارکس، اسکول وغیرہ بناتے ہیں لیکن اپنی ان کاوشوں کوباہمی تعلقات مضبوط کرنےکے ضمن میں بروئے کار لائے بغیر واپس آ جاتے ہیں۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان کو امن بحالی میں اپنی کاوش کو خارجہ پالیسی کی بنیاد پر ازسر نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے اور اسے ان مشنوں کے ختم ہونے سے پہلے ان مواقع کو بروئے کار لانے کی کوشش کرنا ہوگی۔ اسی طرح ، انہوں نے مزید کہا کہ افریقی ممالک میں بہت سارے پاکستانی رہتے ہیں اور ہمیں ان کی علاقے کے بارے میں معلومات سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تعمیرات کی صنعت کی ان صنعتوں میں سے ایک کے طور پر نشاندہی کی جس کی وہاں بہت زیادہ اہمیت موجود ہے لہذا اس جانب بھرپور توجہ دی جانی چاہئے۔
ڈاکٹر بہار نے نشاندہی کی کہ پاکستان بہت سے افریقی طلبا کے لیے دوسرےگھر کی حیثیت رکھتاہے جو اپنی تعلیم کے حصول کے لیے ہر سال بڑی تعداد میں ملک میں آتے ہیں اور پھر اہم عہدوں پر اپنے آبائی ممالک میں خدمات انجام دیتے ہیں۔ اس اہم اثاثے کو بجائے اس کے کہ بعد میں استعمال کی جائے، ان سے رابطہ ہی منقطع کر دیا جاتا ہے اور یوں اس پائیدار وسیلے کو ختم کر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان کو وسائل کے اس ذخیرے کا فائدہ اٹھانے اور چین کی طرح ایک جامع حکمت عملی کے تحت اسے ایک ٹھوس اثاثہ میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
فرزانہ یعقوب نے افریقہ کو کسی نوآبادیاتی سوچ کے بجائے باہمی تعلقات کے نقطہ نظر سے دیکھنے پر زور دیا ۔ انہوں نے کہا کہ براعظم افریقہ ایک ابھرتی ہوئی مارکیٹ تھی جہاں پاکستان نے اپنے کوئی نشان ثبت نہیں کیے۔ کوئی پالیسی ساز افراد یا کاروباری شخصیات اس علاقے پر توجہ مرکوز نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی کوئی نجی ادارے اس کی اتنی بڑی اہمیت کا مطالعہ کر رہا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ بہت سے شعبے ایسے ہیں جن کے ذریعے ان تعلقات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے مثلاً عوام سے عوام کا رابطہ، کاروبار سے کاروبار کا رابطہ، باہمی تعاون سے تحقیق کی کوششیں اور موثر سفارتی مصروفیات۔لیکن اس سلسلے میں اٹھائےجانے والے کسی بھی اقدام میں باہمی فائدہ مندی کا عنصر پیش پیش ہوناچاہئے۔
ڈاکٹر عباس نے اپنی تقریر میں زور دیا کہ ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جو دونوں خطوں کو ایک دوسرے کے قریب لاسکیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ دونوں خطوں میں بہت سی مماثلتیں ہیں جیسا کہ یہ دونوں خام تیل کی پیداوار سے مالا مال ہیں لیکن اس کی قدر و قیمت کی اہمیت سے نابلد ہیں۔ مغربی تعلیم کی قبولیت اور اس سے انکار دونوں طرف تشویش کا باعث رہی ہےجبکہ ان میں سے کوئی بھی سمندری معیشتوں میں زیادہ ترقی نہیں کر پایا ۔ دونوں خطوں کو مل کر اپنے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی تاکید کرتے ہوئے اسپیکر نے کہا کہ افریقی یونین ہر سال 25 جولائی کو "Africa Day of Seas and Oceans” مناتا ہے اور پاکستان اس پلیٹ فارم کو مشترکہ چیلنجز سے نبٹنے اور باہمی تعلقات کو بڑھانے سے متعلق گفتگو کرنے کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کامن ویلتھ ریاستیں اور جزیرے اپنے درمیان محفوظ اور پائیدار سمندری معیشتوں کو بھی ترقی دینے میں تعاون کرسکتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے یہ مشترکہ چیلنج ہے کہ سمندر کے معاشی ذرائع کو بلیو اکانومی کے ڈومین میں کیسے منتقل کیا جائے۔ اس کے علاوہ انہوں نے نشاندہی کرتےہوئے کہا کہ صحت سے متعلق تعلیم ، طبی علم ، تربیت اور صلاحیت میں اضافے کی سرگرمیوں کی منتقلی بھی ایسے شعبے ہیں جہاں پاکستان براعظم افریقہ کی سماجی و معاشی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرسکتا ہے۔
خالد رحمٰن نے بھی پاکستان میں پالیسی سازوں پر زور دیا کہ وہ افریقہ پر مستقل اور مربوط طریقے سے توجہ دیں تاکہ دونوں خطوں کے مابین معاشرتی اور ذہنی رابطوں میں سہولتوں کے اسباب فراہم کرنے پر توجہ دی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ افریقہ بھی پاکستان کی طرح عالمی سیاسی پیراڈائیم کا شکار تھا لہٰذا ایسے بہت سے معاشرتی اور سیاسی ایجنڈے موجود ہیں جن پر دونوں خطے باہمی طور پر کام کر سکتے ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان کے نقطہ نظر سےاہمیت کی حامل بات یہ ہے کہ براعظم کی کل 1.3 آبادی میں سے تقریبا 41 فی صد مسلمانوں پر مشتعمل ہے اور بہت سے افریقی ممالک بھی او آئی سی کا حصہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ میں بھی 55 افریقی ممالک موجود ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے پاس ایک ووٹ کی طاقت موجود ہےجو انتہائ اہم ہے۔ چنانچہ اس طاقت کو نظریاتی امور کے سلسلے میں ایک دوسرے کےلیے اصولوں پر مبنی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
جواب دیں