پاکستان میں مذہب کی جبری تبدیلی کی کہانیوں پر اسلامی نظریاتی کونسل میں آئی پی ایس کی پریزینٹیشن

پاکستان میں مذہب کی جبری تبدیلی کی کہانیوں پر اسلامی نظریاتی کونسل میں آئی پی ایس کی پریزینٹیشن

CII-meeting آئی پی ایس کے تین رکنی وفد نے 25 نومبر 2020 کو اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) کا دورہ کیا اور پاکستان میں مذہب کی جبری تبدیلی کے معاملے پرہونے والی ایک  گفتگومیں حصہ لیا۔

 IPS-Presentation-at-CII-on-Forced-Conversion

 آئی پی ایس کے تین رکنی وفد نے 25 نومبر 2020 کو اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) کا دورہ کیا اور پاکستان میں مذہب کی جبری تبدیلی کے معاملے پرہونے والی ایک  گفتگومیں حصہ لیا۔

 وفد میں انسٹی ٹیوٹ کی ریسرچ ٹیم کے ممبران سید ندیم فرحت، غلام حسین صوفی اور حافظ اسامہ حمید شامل تھے۔ جبکہ سی آئی آئی کی طرف سے شرکاء میں  صدر مجلس  ڈاکٹر اکرام الحق ، سیکرٹری سی آئی آئی ڈاکٹر انعام اللہ ، ڈائریکٹر جنرل سی آئی آئی  اور کونسل  کی ریسرچ فیکلٹی کے سینئر ارکان شامل تھے۔

 صوفی نے اس موقع پر ’پاکستان میں جبری مذہبی تبدیلی  کےافسانے: قانونی اور پالیسی  مضمرات‘ کے عنوان سے ایک پریزنٹیشن پیش کی، جو  آئی پی ایس کے ایک مطالعہ پر مبنی تھی۔ انہوں نے شرکاء کو آگاہ کیا کہ مقامی اور غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں نے ان واقعات کے پیچھے خطرے، خوف اورطاقت کے عنصر کو جنم دینے کے لیے بنیادی طور پرصوبہ سندھ میں مذہب کی تبدیلی سے متعلق حقائق اور اعداد و شمار کو کس طرح  تروڑمروڑ دیا ہے۔ یہاں تک کہ پریزنٹیشن کےمطابق خود سے اسلام قبول کرنے والے بالغ مردوں اور  خواتین کے  قبولِ اسلام  کو بھی  کم عمر افراد کے قبولِ اسلام کے ساتھ ملا کر جبری مذہبی تبدیلی کے زمرے میں پیش کیا گیا جنہیں ان کے بقول مقامی مسلمانوں نے اغوا کر کے مسلمان علماء کے ذریعےسہولت فراہم کی تھی۔  پھران  قصے کہانیوں کو پاکستان کی ریاست، معاشرے اور مذہبی و ثقافتی اصولوں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ۔

مقرر نے اپنامؤ قف پیش کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ غیرمنطقی پروپیگنڈہ میڈیا میں اس قدر عام ہوچکا ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی ادارے بھی اصل رپورٹس کی توثیق کیے بغیر ان کا حوالہ دیتے ہیں جو حقیقت میں کسی بھی طرح کے ٹھوس ثبوتوں سے خالی ہیں۔ اس منظرنامے کے نتیجے میں ریاست پرکچھ پایسی پر مبنی قانونی اقدامات اٹھانے کے لیے زبردست دباؤ پیدا ہوا ہے۔

اس پریزنٹیشن کے بعد تبادلۂ خیال پر مبنی ایک نشست  ہوئی جس میں یہ انکشاف ہوا کہ ایسے بہت سارے اراکین پارلیمنٹ جن کو اس مسئلے کو حل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، اس  مسئلہ کےایسے زمینی حقائق، مقامی رسومات اور صدیوں پرانے اصولوں پر بنیادی معلومات بھی نہیں رکھتے  ہیں جن میں سے کسی ایک پر بھی حکومتی سطح پر کیے گئے کسی پالیسی اقدام سے بندش نہیں  لگائی جا  سکتی۔

بحث  میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ تصویر کے تمام پہلو نگاہ میں رکھے  بغیر کوئی پالیسی اور قانونی اقدام نہیں اٹھایا جانا چاہیے۔ اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ ایسے اقدامات اٹھائے جانے چاہییں جو پالیسی سازوں، ریاستی حکام اورمعاشرے کو ایسے غلط پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے میں رہنمائی دے سکیں جو مقامی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے تصور کو نقصان پہنچا  رہا ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے