ریگولیٹری ہم آہنگی، آئی ایم او ضوابطکی تعمیل بحری صلاحیت کو اجاگر کرنے کے لیے اہم: ماہرین
بحری امور کے ماہرین نے زور دیا ہے کہ پاکستان کے بحری نظام کو جدید بنانے کے لیے نجی شعبے کو پالیسی سازی میں شامل کرنے کی ضرورت ہے، بحری معیارات کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ ڈھانچہ جاتی جدت ، ریگولیٹری ہم آہنگی، اور انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن (آئی ایم او) کے ضوابط پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ آئی ایم او کے ضوابط پر عملدرآمد کے لیے مربوط قانونی اصلاحات، وزارتوں کے درمیان ہم آہنگی، پیدا کی جانی چاہیئے، پاکستان کو مسابقتی اور پائیدار بحری ملک کے طور پر پیش کرنے کے لیے نجی شعبے کی زیادہ شمولیت درکار ہے۔
ان خیالات کا اظہارمقررین نے "آئی ایم او کے ضوابط کی نافذی: پاکستان کی شپنگ انڈسٹری کے لیے مواقع اور حکمت عملی” کے عنوان سے ۳ جون ۲۰۲۵ کو منعقد گول میز مکالمے کے دوران کیا۔ مکالمے کا اہتمام ورلڈ میری ٹائم ڈے کے موقع پر انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)، اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ مکالمے میں وزارت بحری امور کے مشیر کموڈور (ر) جواد اختر، بحری حکمت عملی کے ماہر اور کنسلٹنٹ کموڈور (ر) عرفان تاج، رکن نیشنل کلائمیٹ چینج کونسل علی توقیرشیخ، ڈائریکٹر (لیگل)، وزارت بحری امور شہزاد عطا، چیئرمین، آئی پی ایس خالد رحمان اور وائس چیئرمین آئی پی ایس سا بق سفیر سید ابرار حسین نے گفتگو کی۔
کموڈور (ر) جواد اختر نے پاکستان کی حالیہ بحری کامیابیوں اور آئی ایم او کے معیارات کے ساتھ ہم آہنگی کی پیشرفت کا خاکہ پیش کیا، اور ڈھانچی جاتی جدت اور ریگولیٹری اصلاحات کے ذریعے بحری تجارت کو 100 ارب ڈالر سے زیادہ تک بڑھانے کے امکان پر زور دیا۔ انہوں نے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کے احیاء کے منصوبے کو اجاگر کیا، جس کا ریونیو گزشتہ سال 6 ارب روپے تھا جبکہ 21۔2020 کا ر یونیو21 ارب روپے تھا۔ ریونیو میں کمی کی وجہ ہانگ کانگ کنونشن پرمکمل عملدرآمد نہ کرنا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی پہلی جامع ماہی گیری پالیسی، پی این ایس سی کو چار آئی ایم او کے مطابق جہاز حاصل کرنے کی منظوری، ہانگ کانگ کنونشن میں شمولیت، اور اہم بندرگاہ اور شپنگ آرڈیننسز کے لیے قانونی اصلاحات پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے بتدریج لیکن مستقل آئی ایم او کے قوانین پر عملدرآمد کی ضرورت پر زور دیا اور پرانے قوانین اور ڈیٹا رپورٹنگ کے خلا کی بھی نشاندہی کی۔ انہوں نے آئی ایم او یو کونسل کے انتخابات سے پہلے جدید بندرگاہی طریقہ کار اور عوامی بحری سروے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ عالمی اعتماد بحال کیا جا سکے۔ انہوں نے تھنک ٹینکس، وزارتوں کے درمیان ہم آہنگی، اپ ڈیٹ قانونی فریم ورک، اور زیر التواء آئی ایم او کنونشنز میں مکمل شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے ایک ہم آہنگ نقطہ نظر کی وکالت کی تاکہ پائیدار بحری ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔
شہزاد عطا نے قانونی ابہامات اور اداراتی عدم ربط کی نشاندہی کی جو نفاذ کو پیچیدہ بناتے ہیں اور گرین شپنگ انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کو روکتے ہیں۔ انہوں نے 18ویں ترمیم کے ذریعے متعارف ہونے والی سیاسی اور آئینی پیچیدگیوں پر روشنی ڈالی، ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت صوبائی دائرہ کار کو مناسب مشاورت کے بغیر نظر انداز نہیں کر سکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی کنونشنز ذمہ داریوں کے اندرونی تقسیم کو حل نہیں کرتے، جس سے ان کے مقامی نفاذ کو پیچیدہ بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے ہانگ کانگ کنونشن کے کامیاب مقامی نفاذ کی تعریف کی جس میں غیر ملکی تکنیکی مدد شامل نہیں تھی،ان کانلہنا تھا کہ لیکن مستقبل میں بین الاقوامی کنونشنز کی توثیق کے چیلنجز کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے۔

کموڈور (ر) عرفان تاج نے زور دیا کہ آئی ایم او کے گرین ہاؤس گیسز کے ہدف کو پورا کرنا صرف ایک موسمیاتی ذمہ داری نہیں بلکہ پاکستان کی بحری مسابقت کے لیے بھی ضروری ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ عدم تعمیل کی صورت میں غیر ملکی شپنگ لائنز پر انحصار اور عالمی تجارتی راستوں سے خارج ہونے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے پی این ایس سی کو ایک تجارتی ادارے کے طور پر پیش کرنے اور گرین ایندھن کو سپورٹ کرنے کے لیے بندرگاہی انفراسٹرکچر کو جدید بنانے پر زور دیا ۔ انہوں نے بندرگاہی آپریشنز کی نجکاری، بین الاقوامی شراکت داریوں کو فروغ دینے، اور قومی کاربن کریڈٹ فریم ورک قائم کرنے کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے پالیسی تسلسل، ریگولیٹری وضاحت، اور شعبہ جاتی ہم آہنگی کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ عالمی معیارات کے مطابق مضبوط اور پائیدار بحری منتقلی کو یقینی بنایا جا سکے۔
علی توقیرشیخ نے پاکستان کی کے بحری شعبے کو جدید بنانے میں نجی شعبے کی شمولیے کی اہمیت پر زور دیا ۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی طور پر فعال بحری شعبہ نہ صرف ماحولیاتی ضرورت ہے بلکہ معاشی لحاظ سے بھی اہم ہے۔ انہوں نے ایک جامع اور مشاورتی پالیسی فریم ورک کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
گول میز مکالمے کا اختتام کرتے ہوئے، خالد رحمان نے نقطہ نظر کی تنوع اور بحری شعبے میں اصلاحات کے لیے بڑھتی ہوئی رفتار کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے زور دیا کہ پالیسی استحکام اور ریگولیٹری پیش گوئی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بڑھانے، طویل مدتی سرمایہ کاری کو راغب کرنے، اور معنی خیز اصلاحات کو برقرار رکھنے کے لیے اہم ہیں۔ انہوں نے نجی شعبے کو پالیسی سازی میں شامل کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا تاکہ ایک ہموار اور مؤثر بحری منتقلی کو یقینی بنایا جا سکے۔
