یقین و دانش کا علمبردار: پروفیسر خورشید احمد کی ہمہ جہت میراث کو خراجِ تحسین

یقین و دانش کا علمبردار: پروفیسر خورشید احمد کی ہمہ جہت میراث کو خراجِ تحسین

پروفیسر خورشید احمد مرحوم کی شخصیت کا جوہر ان کی انکساری، شفقت، خلوص اور وقار میں نمایاں تھا۔ جو بھی ان سے ملا، ان کے اخلاق اور علم کی گہرائی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ ان کی علمی سرپرستی اور فکری رہنمائی نے کئی نسلوں کے اسکالرز اور مفکرین کی ذہن سازی کی، جو ان کی میراث کا ایک اہم پہلو ہے۔ علم و تحقیق کے ساتھ ساتھ، انہیں اردو زبان، ادب اور شعری اظہار سے گہرا شغف تھا۔

یہ جذباتی اور پُراثر تذکرہ ایک خصوصی ادبی نشست "محفلِ شعر و سخن” میں کیا گیا، جو ممتاز عالم، مفکر، ماہرِ معیشت، مصلح اور مدبر پروفیسر خورشید احمد کی یاد میں منعقد ہوئی۔ یہ تقریب دائرۂ علم و ادب پاکستان نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز)آئی پی ایس(، اسلام آباد کے اشتراک سے۲۹ اپریل ۲۰۲۵ کو منعقد کی۔

نشست میں ممتاز شعراء، ادیبوں اور علمی شخصیات نے شرکت کی اور پروفیسر خورشید احمد کی فکری، ادبی اور قومی خدمات پر خراجِ تحسین پیش کیا۔ مقررین میں ڈاکٹر افتخار برنی،  نائب صدر دائرۂ علم و ادب ، احمد حاطب صدیقی، مرکزی صدر دائرۂ علم و ادب ، محمد زیغم مغیرہ،سرپرست دائرۂ علم و ادب ، سید ابرار حسین، نائب چیئرمین آئی پی ایس ، معروف نقاد و محقق ڈاکٹر ظفر حسین ظفر، اسکالر ڈاکٹر حبیب الرحمان عاصم، معروف ادیب محمد حمید شاہد، اور مذہبی اسکالر خلیل الرحمٰن چشتی شامل تھے۔ اس بامعنی نشست کی صدارت رِفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور پروفیسر خورشید کے بھائی ڈاکٹر انیس احمد نے کی، جبکہ نظامت مزمل دانش نے انجام دی۔

مقررین نے نثر و نظم دونوں کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کیا، اور پروفیسر خورشید احمد کی علمی، ادبی اور سماجی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو یاد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے انتقال سے ایک عظیم خلا پیدا ہوا ہے، تاہم ان کی تقاریر، تحریریں اور فکری بصیرت آج بھی فکری و اخلاقی رہنمائی فراہم کر رہی ہیں۔

شرکاء نے اسلامی معیشت اور سود سے پاک بینکاری کے فروغ میں پروفیسر خورشید کے قائدانہ کردار کو سراہا، اور انہیں اس میدان میں عالمی سطح پر ایک مقتدر آواز قرار دیا، جسے کئی بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا۔ تاہم، ان کا اثر صرف معیشت تک محدود نہیں تھا۔ بچپن سے ادب کے شیدائی پروفیسر خورشید نے معروف رسالہ "چراغِ راہ” کی ادارت کی اور اردو ادب کو کئی فکر انگیز تخلیقات سے مالا مال کیا۔

ان کی ادبی لطافت اور اسلامی و جدید فکری مباحث پر گہری دسترس نے انہیں ایک ممتاز رہنما اور مربی بنایا، جنہوں نے سینکڑوں طلبہ، اسکالرز اور قائدین کی رہنمائی کی۔ ان کی کتاب دوستی ضرب المثل تھی،نہ صرف خود کتب پڑھتے بلکہ دوسروں کو کتب تحفے میں دے کر مطالعے کی ترغیب بھی دیتے۔

مقررین کا کہنا تھا کہ پروفیسر خورشید کو وقت سے پہلے مسائل کی پیش بینی کی خداداد صلاحیت حاصل تھی، جسے وقت نے بارہا درست ثابت کیا۔ ان کے بقول، اگرچہ اسلامی تحریک ایک فکری رہنما سے محروم ہو چکی ہے، مگر ان کی میراث آج بھی فکری روشنی کا مینار ہے۔ شرکاء نے اس امر پر زور دیا کہ ان کے فکری، علمی اور ادبی اثاثے کو محفوظ بنا کر فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے، تاکہ ادارے اور نظریات مضبوط بنیادوں پر استوار رہیں۔

اختتامی خطاب میں ڈاکٹر انیس احمد نے پروفیسر خورشید کی اس انفرادیت پر روشنی ڈالی کہ وہ مغرب سے اس کی اپنی زبان میں مکالمہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ انہوں نے مولانا مودودی کی فکر کو واضح اور مدلل انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ آخر میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں ان اعلیٰ اقدار،دیانت، فکری نظم و ضبط، اور امت سے سچی وابستگی،سے ازسرِ نو عہد کرنا چاہیے، جو پروفیسر خورشید احمد کی زندگی کا خاصہ تھیں۔

Share this post