FMCT معاہدے کے روبہ عمل ہونے پر پاکستان ہی سب سے زیادہ متاثر ہوسکتا ہے۔ شیریں مزاری
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد میں ۱۳ فروری ۲۰۱۳ء کوایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے معروف اسکالر اور دفاعی ماہر ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ پاکستان کے لیے کروز میزائیل ٹیکنالوجی کی ترقی انتہائی اہم ہے جو کہ بھارت کی دفاعی میزائیل صلاحیت کا مقابلہ کرتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کو اپنی ’کم سے کم قابلِ بھروسہ سد جارحیت‘ اور ’دفاعی مزاحمت‘ کے اصولی موقف پر قائم رہنا چاہیے اور اپنے پتے کامیابی اور حکمت کے ساتھ کھیلنے چاہئیں۔
اس خطے اور بین الاقوامی سطح پر ابھرتی ہوئی صورت حال پر پاکستان کے رد عمل کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگرچہ پاکستان نے کئی مواقع ضائع بھی کیے ہیں پھر بھی اس نے سد جارحیت کی اپنی صلاحیت اور اس کی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے کئی عوامل کو احسن طریقے سے استعمال کیا ہے۔ حال ہی میں ہونے والے 60 کلومیٹر رینج کے نصر میزائیل کا تجربہ نہ صرف وقت کی ضرورت تھی بلکہ یہ تجربہ بر وقت کیا گیا کیونکہ اس کے ذریعے پاکستان نے اس بات کا ثبوت فراہم کیا ہے کہ اس نے ایسی ٹیکنالوجی حاصل کر لی ہے جس سے وہ بھارت کے ’سرد آغاز‘ اور ’ثانوی حملے‘ کا سد باب کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض امریکی ذرائع کی سوچ کے برعکس نصر میدانِ جنگ کا ہتھیار نہیں ہے اور نہ ہی یہ اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ مزاحمت اور سد جارحیت کے موقع کو جنگ میں پلٹ دے گا۔
ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ پاکستان کو بھارت کے سامنے یہ تجویز پیش کرنی چاہیے کہ باہمی دفاعی اعتماد سازی کے اقدام کے طور پر دونوں ملکوں کی سرحد وں کے طول میں مشترکہ سول ایٹمی بجلی گھروں کی تنصیب کا عمل شروع کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے نہ صرف دونوں ملکوں کو کم لاگت پر توانائی حاصل ہو گی، موجودہ توانائی کا بحران حل ہو گا بلکہ یہ اقدام دونوں ایٹمی ملکوں کے درمیان سدِّ جارحیت کا اہم سبب بنے گا۔
سیمینار کے شرکاء نے خیال ظاہر کیا کہ یہ ایک تجویز اور امکانی اقدام تو ہو سکتا ہے لیکن گزشتہ بھارتی رویہ کے پیشِ نظر یہ تجویز بھی ان بہت سی تجاویز کی طرح سرد خانے میں چلی جائے گی جو اس سے پہلے بھی خطے میں امن کے قیام کے لیے پاکستان کی طرف سے دی جا چکی ہیں۔ جب تک کشمیر کے بنیادی مسئلے کے حل کے لیے حقیقی پیش رفت نہ ہو، دو طرفہ تجارت سمیت باہمی اعتماد سازی کے نظام میں کوئی ترقی نہیں ہو سکتی۔سیمینار میں دفاعی، اسٹرٹیجک اور خارجہ پالیسی کے اعلیٰ ماہرین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔سیمینار کی صدارت آئی پی ایس کے بانی چیئر مین پروفیسر خورشید احمد نے کی اور اس کی نظامت کے فرائض آئی پی ایس کی کونسل کے رکن ایئر کموڈور ریٹائرڈ خالد اقبال نے انجام دیے۔
ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ ایٹمی ہتھیاروں کا کنٹرول اور ہتھیاروں کا خاتمہ جیسے تصورات دنیا میں دو متوازی طرزِ عمل کے ساتھ چلتے رہے ہیں۔ ایک طرزِ عمل کو ’’امریکہ کی مرضی کے تابع امتیازی اپروچ‘‘ اور دوسرے کو ’’غیر امتیازانہ اپروچ‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ ماضی میں پہلی اپروچ کا مظہر ایٹمی عدم پھیلاؤ معاہدہ (این پی ٹی) آتا ہے اور جس نے اب مجوزہ معاہدہ برائے انقطاع فیزائیل مواد (ایف ایم سی ٹی) کی شکل اختیار کر لی ہے جبکہ دوسری اپروچ کے تحت ماضی میں سی ٹی بی ٹی معاہدہ یا بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے بعض اقدامات آتے ہیں۔ حال ہی میں شمالی کوریا کی جانب سے کیے گئے تیسرے ایٹمی تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس نوعیت کے اقدامات معاہدہ کی مستثنیات میں شمار کیے جا سکتے ہیں کیونکہ ایٹمی معاہدات میں سب سے اہم معاہدہ یعنی این پی ٹی ایٹمی طاقتوں کی موجودہ بین الاقوامی صورت گری میں خود اس کے پیش کاروں نے غیر مؤثر بنا دیا ہے۔اس حوالے سے انہوں نے بھارت امریکہ ایٹمی معاہدہ کو مثال کے طور پر پیش کیا۔ جس میں امریکہ نے ایٹمی سپلائرز گروپ پر سے ان بہت سی پابندیوں کو اٹھا لیا ہے جو کہ اس سے متعلقہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ امریکہ کی پیروی کرتے ہوئے فرانس اور برطانیہ نے بھی بھارت کے ساتھ ایسے ایٹمی معاہدے کیے ہیں جو این پی ٹی کے تحت متنازع نوعیت کے ہیں۔ انہوں نے اس سارے جوہری منظر نامے کو تین اہم اور بڑے ادوار کا نام دیا۔ پہلا ’باہم دست بہ گریبان ایٹمی قوتوں کا دوسرے ممالک کی لیے امتیازی ایٹمی عدم پھیلاؤ‘ کا دور۔دوسرا ایٹمی توانائی کی پیداوار میں حفاظتی پہلوؤں پر بحث کا دور اور تیسرا ایٹمی عدم پھیلاؤ پر بحث مباحثے کا دور۔
|
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت سے یہ تقاضا کہ وہ این پی ٹی پر دستخط کر دیں ایک نامعقول مطالبہ ہے کیونکہ یہ دونوں ایٹمی ممالک اپنی ایٹمی صلاحیت سے کبھی بھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ اس معاہدے کو اضافی پروٹوکول دینے کے لیے ایک فعال سفارت کاری اور مشترکہ کاوشوں کو روبہ عمل لایا جائے جس کے باعث ان دونوں ممالک کو باقاعدہ ایٹم بردار ریاستیں تسلیم کیا جا سکے۔
معاہدہ برائے انقطاع فیزائیل مواد (FMCT) پرگفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اس بات کا متحمل ہی نہیں ہو سکتا کہ وہ اس معاہدہ پر رضامند ہو اور اس کی وجہ بالکل واضح ہے کہ اس معاہدے کے روبہ عمل ہونے پر اگر کوئی ملک سب سے زیادہ متاثر ہوتا نظر آتا ہے تو وہ پاکستان ہے۔ انہوں نے ایٹمی توانائی کے میدان میں ایک اور امتیازی اقدام کے خلاف مزاحمت جاری رکھنے پر حکومتِ پاکستان کی تعریف کی۔انہوں نے یاد دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے کے مجوزہ ڈرافٹ سے صرف پاکستان ہی غیر مطمئن نہیں ہے، اس کے علاوہ اس معاہدے پر رائے دہی سے اجتناب کرنے والے 20 ممالک اور بھی ہیں جو اس کے مختلف پہلوؤں پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔اگر ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ ہم باقی دنیا سے الگ تھلگ رہ جائیں گے تو بھی ہمیں اپنے مفادات کے تحفظ پر مصر رہنا چاہیے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو یہ جدوجہد جاری رکھنی چاہیے کہ بین الاقوامی ضابطوں کو معیار کی بنیاد پر استوار کیا جائے نہ کہ مخصوص ممالک کو ہدف بنا کر۔
انہوں نے ان احتیاطوں اور حفاظتی انتظامات کا ایک سروے بھی پیش کیا جو پاکستان نے اپنے ایٹمی اثاثوں کی بابت کر رکھے ہیں۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ کئی دیگر ایٹمی قوتوں کی نسبت پاکستان سے جوہری مواد کی چوری یا اس کے پھیلاؤ میں معاونت کی ایک مثال بھی موجود نہیں ہے۔ انہوں نے عمومی طور پر لگنے والے اس الزام کی بھی تردید کی کہ شمالی کوریا کی جوہری ٹیکنالوجی کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شمالی کوریا نے 2006 ء میں جو پہلا ایٹمی تجربہ کیا تھا اس میں استعمال ہونے والے آلات پلاٹونیم ٹیکنالوجی کی بنیاد پر بنائے گئے تھے جبکہ پاکستان کا جوہری پروگرام یورینیم پر منحصر ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے چیئر مین پروفیسر خورشید احمد نے صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے لیے ایٹمی صلاحیت کی موجودگی اس کی بقا کے لیے لازمی ہے۔ ایٹمی صلاحیت میں ایسی ترقی جس سے پاکستان با لآخر ایٹمی طاقت بنا اور اس کے بعد اس میدان میں مسلسل ترقی، ایٹمی ہتھیاروں کو چھوٹے سے چھوٹا بنانا، اس کو تیزرفتاری سے ہدف تک پہنچانے کی صلاحیت حاصل کرنا، اس کی حفاظت اور کنٹرول کا بہترین انتظام کرنا اور اس کے ہر مرحلہ پر جدید دنیا کی ترقیات کے ساتھ ہم آہنگ رہنا وہ پہلو ہے جو پاکستانیوں کے لیے قابل فخر ہے ۔ اس متحرک ایٹمی صلاحیت کو برقرار رکھنے ہی میں پاکستان کی سلامتی ، دفاع اور سدِّ جارحیت کا سامان ہے۔ اس میں ترقی کا عمل جاری رہنا چاہیے۔ حالیہ نصر۔6 میزائل کا تجربہ پاکستان کی اس صلاحیت کا عکاس ہے ۔ البتہ سفارتی سطح پر ہماری کمزوریاں ہمارے دشمنوں کو حوصلہ دیتی ہیں۔اس محاذ کو بھی مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ پہلو بھی ہمارے سامنے رہے کہ سفارت کاری کے محاذ پر پاکستان مخالف لابی کی طرف سے خواہ جتنی ہی گرد اڑائی جائے، ہم دفاعی ترقی کے حق سے ہر گز دستبردار نہیں ہو سکتے۔ ایٹمی ہتھیار کے ساتھ ساتھ روایتی ہتھیار کی اپنی اہمیت ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے متبادل نہیں ہو سکتے، ایک دوسرے کو تقویت پہنچانے کا باعث ہیں اور ہماری دفاعی ضروریات کے لیے دونوں ضروری ہیں۔بھارت کے ساتھ کشمیر اور دریاؤں کے پانی کے مسئلے کا جب تک باعزت طریقے سے حل نہ نکلے ہم اپنے دفاع سے بے نیاز نہیں رہ سکتے۔ کشمیری عوام 60 سال سے زائد عرصہ سے بھارتی مظالم سہہ رہے ہیں لیکن انہوں نے آج تک کشمیر پر بھارتی قبضے کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ افضل گورو کی پھانسی پر خود بھارت کے میڈیا میں جو ردِّ عمل سامنے آیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر کی تحریکِ آزادی وسعت پذیر ہے۔سیمینار میں جن اہم علمی، سفارتی اور دفاعی شخصیات نے اظہارِ خیال کیا ان میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ریٹائرڈ اسد درانی، ممتاز دفاعی تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود، شعبہ بین الاقوامی تعلقات قائدِ اعظم یونیورسٹی کے سربراہ ڈاکٹر ظفر نواز جسپال اور دیگر شامل ہیں۔
جواب دیں