پاک چین تعلقات: دوطرفہ اور اس سے آگے
پاک چین تعلقات پر آئی پی ایس کے ایک دہائی سے جاری پروگراموں میں ایک اضافہ وہ تین روزہ کانفرنس ہے جو ۲۸ سے ۳۰اپریل ۲۰۱۴ء کو منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا موضوع تھا ’’پاک چین تعلقات: دوطرفہ اور اس سے آگے‘‘۔ یہ کانفرنس تین چینی اداروں (انسٹی ٹیوٹ آف سائوتھ ایشین اسٹڈیز چیندو، انسٹی ٹیوٹ آف سائوتھ ایشین اسٹڈیز کنمنگ، انسٹی ٹیوٹ آف سنٹرل ایشین اسٹڈیز اڑمچی) اور دو پاکستانی اداروں (یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور اور پشاور یونیورسٹی) کے ساتھ مل کر ترتیب دی گئی۔
۲۸ اپریل ۲۰۱۴ء کو کانفرنس کے پہلے دن کا پروگرام آئی پی ایس میں رکھا گیا تھا۔ کانفرنس کے صبح اور سہ پہر کے اجلاسوں کا عنوان ’’افغانستان، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور خطے کا منظر نامہ‘‘ اور ’’رابطہ سازی، اقتصادی تعاون اور متعلقہ مسائل‘‘ تھا جن کی صدارت بالترتیب نسٹ کے پروفیسر اور ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ اینڈ پبلک پالیسی کے چیئرمین ڈاکٹر رفعت حسین اور وزارتِ پٹرولیم و قدرتی وسائل کے سابق سیکرٹری ڈاکٹر گلفراز احمد نے کی۔
ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) خالد محمود نے کلیدی خطاب میں پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کے منصوبے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے متعلقہ ذمہ دار اداروں کو تیز تر اور بامعنی کوششیں جاری رکھنا ہوں گی۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ آنے والے وقت میں اس راہداری سے فوائد سمیٹنے کے لیے صنعتوں اور ان سے متعلقہ ڈھانچے کو مربوط کرتے ہوئے اس منصوبے کو تزویراتی نقطۂ نظر سے ڈھالنا ہو گا۔
سنٹر فار سائوتھ ایشیا ویسٹ، چین کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر زی ڈائے گینگ نے اپنے خطاب میں پاک چین اقتصادی راہداری کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ مغربی چین کو سڑک، ریلوے، تیل اور گیس کی پائپ لائنوں اور آپٹیکل فائبر کے ذریعے پاکستان سے جوڑ دے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ راہداری محض راستہ نہیں ہے بلکہ اس سے اس خطے میں اقتصادی سرگرمیوں کے لیے درکار بنیادی ڈھانچے اور توانائی، زراعت اور پانی کی بچت پر مبنی ترقیاتی مواقع پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری مستقبل قریب کے لیے چین کی قومی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ ہے۔
انہوں نے ارضیاتی ماحول کی سختیوں اور پاکستان میں ناکافی بنیادی ڈھانچے کو ایسے بہت سے عوامل میں شمار کیا جن کے سبب اس تصور کی راہ میں بہت سے چیلنج درپیش ہوں گے۔ تاہم انہوں نے توقع ظاہر کی کہ قراقرم ہائی وے کی نئی تعمیر اور اقتصادی راہداری کے ساتھ ساتھ ذریعہ معاش کے منصوبوں کی تخلیق سے ان ممکنہ مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔
سنکیانگ اکیڈمی آف سوشل سائنسز (XJASS) اڑمچی کے ریسرچ ایسوسی ایٹ زو ہائو می آئو کے خطاب کا عنوان تھا ’’سنکیانگ اور پاکستان کے درمیان تجارت‘‘۔ انہوں نے اس ضمن میں حالیہ برسوں میں ہونے والی سرگرمیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے توجہ دلائی کہ سنکیانگ کا تجارتی سرپلس دونوں علاقوں کی تجارت میں ایک بڑے عدم توازن کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی وجوہات کے باعث 2012ء کے بعد یہ تجارت ایک نمایاں زوال کا بھی شکار ہے۔ ان مسائل کا حل پیش کرتے ہوئے زو نے کہا کہ سنکیانگ کو پاکستان کے ساتھ اقتصادی تعاون بڑھانے کے لیے اُن ریاستی پالیسیوں کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے جو اس کی ترجیحی اہمیت اجاگر کرتی ہیں۔ انہوں نے کسٹم کی ادائیگی کے طریقہ کار میں نرمی کی طرف توجہ دلائی اور کہا کہ پاک چین ہائی وے کی کارکردگی کو بھی بہتر کیا جانا چاہیے۔
انسٹی ٹیوٹ آف سنٹرل ایشین اسٹڈیز اڑمچی (ICAS) کی ڈپٹی ڈائریکٹر شی لین نے ’’دہشت گردی اور علاقائی تعاون‘‘ کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی سب کا مشترکہ مسئلہ ہے لیکن تمام ممالک نے اس کی اپنی سی تعریفیں کر رکھی ہیں اور اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے اپنے حساب سے پالیسیاں مرتب کی ہوئی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف خطے کے ممالک کا تعاون اور اس کے مختلف پہلوؤں پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ پر بے انتہا رقم خرچ کی ہے لیکن ایک دہائی بعد بھی اس کے خاتمے کے کوئی آثار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف پالیسیوں میں کہیں کوئی خرابی ہے جسے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں بعض عالمی قوتوں کے دوہرے معیار کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
ISAS چیندو کے سینئر تحقیق کار ڈاکٹر زی ہوئے نے ان امکانات پر روشنی ڈالی جو افغانستان میں پاکستان اور چین کے تعاون سے وقوع پذیر ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنے موضوع ’’افغانستان سے نیٹو کے انخلا کے بعد چین پاکستان تعاون‘‘ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے امداد میں کمی کے باعث افغانستان کی داخلی سلامتی اور اس کی معیشت کی بحالی کو شدید خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور چین کو افغانستان کے ساتھ خطے میں امن اور استحکام برقرار رکھنے کے لیے بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔
اس موقع پر انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن نے بھی خطاب کیا جب کہ دیگر مقررین میں ایئر کموڈور (ریٹائرڈ) خالد اقبال نے ’’چین کی پرامن اٹھان کو درپیش چیلنج‘‘، کموڈور (ریٹائرڈ) اظہر احمد نے ’’بحر ہند کا ارتقا پذیر ماحول‘‘، بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) سید نذیر نے ’’۲۰۱۴ء کے بعد کا علاقائی منظر نامہ اور پاک چائنا تعاون‘‘، آئی پی ایس لیڈ کو آرڈی نیٹر عرفان شہزاد نے ’’غیر روایتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تعاون‘‘ اور آئی پی ایس کی تحقیق کار فاطمہ حبیب نے ’’پاک چین سول جوہری تعاون: نئے مراحل‘‘ کے موضوعات پر خطاب کیا۔
پشاور یونیورسٹی میں کانفرنس کا اجلاس ۲۹ اپریل ۲۰۱۴ء کو ہوا جس کی صدارت پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد رسول جان نے کی۔ دیگر مقررین میں ڈاکٹر عدنان سرور چیئرمین شعبہ بین الاقوامی تعلقات پشاور یونیورسٹی، خالد رحمن ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس، مس شی لین ڈائریکٹر سنکیانگ اکیڈمی آف سوشل سائنسز (XJASS) اڑمچی اور ڈاکٹر زی ہوئے سانگ انسٹی ٹیوٹ آف سائوتھ ایشین اسٹڈیز چیندو شامل تھے۔ ڈاکٹر زاہد انور شعبہ سیاسیات پشاور یونیورسٹی نے ’’بنیادی ڈھانچوں کے ربط کی ترقی پر مرتکز ۲۰۱۴ء کے بعد کا پاک چین تعاون‘‘، وانگ لے ڈائریکٹر ریسرچ اور شعبہ بین الاقوامی امور سنکیانگ اکیڈمی آف سوشل سائنسز (XJASS) نے ’’سلک روڈ اکنامک بیلٹ‘‘ اور ڈاکٹر بابر شاہ پروفیسر اور چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف ریجنل اسٹڈیز پشاور یونیورسٹی نے ’’آنے والے سالوں میں پاک چین تعلقات: چیلنجز اور مواقع‘‘ پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
۳۰اپریل ۲۰۱۴ء کو کانفرنس کا تیسرا اجلاس یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی (UMT) لاہور میں ہوا جس کی صدارت ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) اکرم ذکی سابق سیکرٹری جنرل وزارت امور خارجہ نے کی جب کہ اس میں جن لوگوں نے خطاب کیا ان میں پروفیسر حسن صہیب مراد ریکٹر یو ایم ٹی لاہور، خالد رحمن ڈئریکٹر جنرل آئی پی ایس، پروفیسر زی ہوئے سانگ انسٹی ٹیوٹ آف سائوتھ ایشین اسٹڈیز چیندو اور پروفیسر زائے ڈایا گینگ ایگزیکٹو ڈائریکٹر سنٹر فار سائو تھ ایشیا – مغربی چین کو آپریشن اینڈ ڈیویلپمنٹ اسٹڈیز سچوان یونیورسٹی چیندو شامل تھے۔
کانفرنس کے تیسرے روز جن مقررین نے اظہارِ خیال کیا ان میں ڈاکٹر اعجاز بٹ پروفیسر شعبہ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کا موضوع تھا ’’جنوبی ایشیا میں چین کی نئی صف بندی‘‘۔ پروفیسر لی جیان وائس چانسلر چائنا ویسٹ نارمل یونیورسٹی نے ’’پاکستان کی ۱۹۵۰ء کی دہائی میں خارجہ پالیسی اور اس کے عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ تعلقات‘‘، ماریہ انیز باسٹوس اسسٹنٹ پروفیسر سکول آف گورننس اینڈ سوسائٹی UMT لاہور نے ’’بحر ہند اور کثیر قطبی ورلڈ آرڈر کا طلوع: چین اور بھارت کا کردار‘‘، راشدہ حمید ریسرچ کوآرڈی نیٹر آئی پی ایس اور مس آصفہ جہانگیر پی ایچ ڈی سکالر سنٹر برائے سائوتھ ایشین اسٹڈیز پنجاب یونیورسٹی نے ’’چین اور بھارت کے تزویراتی تعلقات: جنوبی ایشیا اور پاکستان‘‘، اور ڈاکٹر ارم خالد پروفیسر شعبہ سیاسیات پنجاب یونیورسٹی نے ’’چین اور جنوبی ایشیا: ابھرتی حرکیات‘‘ پر اپنی آراء کا اظہار کیا۔
نوعیت: روداد کانفرنس
موضوع: پاک چین تعلقات: دوطرفہ اور اس سے آگے
تاریخ: ۲۸ تا ۳۰ اپریل ۲۰۱۴ء
جواب دیں