تنازعات کے بعد تعمیر نو کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے افغانستان کو ترقی کی راہیں متعین کرنےاور قومی صلاحیت کو استوار کرنے کا مشورہ

تنازعات کے بعد تعمیر نو کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے افغانستان کو ترقی کی راہیں متعین کرنےاور قومی صلاحیت کو استوار کرنے کا مشورہ

موجودہ صورت حال کے چیلنجوں کے باوجود، افغانستان کوچاہیے کہ وہ قومی صلاحیت کو فروغ دینے اور اندرونی اور بیرونی مسائل کو پرامن طریقے سے حل کرنے پر توجہ مرکوز کرے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان کو مدد فراہم کی جائے کیونکہ اس کے استحکام  کے ساتھ پورے خطے کا استحکام جڑا ہوتا ہے۔اگرچہ پاکستان افغانستان کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے تاہم اسے نئے مواقع  تلاش کرنے، ان پرتحقیق کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے ذریعے افغانستان کو تنازعات کے بعد تعمیر نو کی طرف لایا جا سکے اوراس کی صلاحیتوں کو بڑھانے میں مدددی جا سکے۔

یہ اس بات چیت کا لب لباب ہے جوسنٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈ سٹیبلیٹی(سی آئی پی ایس)، نسٹ (این یو ایس ٹی) میں صلاحیت سازی کی تربیت حاصل کرنے والے 30 نوجوان افغان سکالرز اور پروفیسرز کے وفد کے ساتھ 16 نومبر 2022 کوآئی پی ایس کے دورے کے موقع پر ہوئی۔ وفد کی سربراہی طغرل یامین، ڈین،سنٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈ سٹیبلیٹی(سی آئی پی ایس)، نسٹ؛ اور ڈاکٹر عقاب عالیک، ایسوسی ایٹ پروفیسر،سنٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈ سٹیبلیٹی(سی آئی پی ایس)، نسٹ نے کی۔ وائس چیئرمین آئی پی ایس ایمبیسیڈر (ر) سید ابرار حسین اور سینئر آئی پی ایس ایسوسی ایٹ بریگیڈیئر (ر) سید نذیر مہمند نے وفد سے خطاب کیا۔

وفد نے مقررین کے ساتھ پاک افغان تعلقات، افغانستان کی کمیونٹی کو درپیش سیاسی اور سماجی چیلنجز اور افغانستان اور خطے کے مستقبل پر بات چیت کی۔

پاک افغان تعلقات پر بات کرتے ہوئے ابرار حسین نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان برادرانہ تعلقات ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان اختلافات سے زیادہ مشترکات ہیں۔ یہ مشترکات تاریخی نوعیت کے دوطرفہ تعلقات کی نشان دہی کرتے ہیں جو سیاسی، اقتصادی، دفاعی اورثقافتی شعبوں کے ساتھ ساتھ عوامی رابطوں کی شکل میں پھیلے ہوئے ہیں۔

سیاسی تعلقات میں اختلافات کے باوجود پاکستان اور افغانستان کے درمیان ثقافتی تعلقات اور عوام سے عوام کا رابطہ سب سے زیادہ مضبوط ہے۔اس بات کی نشاندہی اس بات سے ہوتی ہے کہ ایک وقت تھا جب چمن اور طورخم کے راستے روزانہ 50,000 سے زیادہ لوگ سرحد عبور کرتے تھے۔

انہوں نے زوردیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہمیشہ سےافغانستان کاخیر خواہ رہا ہے اور اپنی سیاسی اور سفارتی حمایت کے ذریعے افغانستان میں امن قائم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ انہوں نے اس کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے مری مذاکرات اور چار فریقی مذاکرات شروع کیے اور دوحہ معاہدے کی حمایت کی۔

مزید برآں، افغانستان کی اقتصادی اور ترقیاتی صلاحیت کو بڑھانا پاکستان کی ترجیح رہی ہے۔ لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی، دوطرفہ تجارت، افغانستان کے لیے اقتصادی امداد کے پیکجز اور نوجوان افغان طلباء کو اسکالرشپ اور تعلیمی مواقع فراہم کرکے ان کی مدد کرنا اور افغان یونیورسٹیوں میں فیکلٹیز کی تعمیر اس کوشش کے کچھ اظہار ہیں۔

ابرار حسین نے کہا کہ افغانستان کوچاہیے کہ وہ پاکستان کی کوششوں کو نظر انداز نہ کرےکیونکہ دونوں ریاستوں کا مستقبل ایک ساتھ آگے بڑھنے میں ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خطے اور دو طرفہ تعلقات میں اجتماعی استحکام لانے کے لیے دونوں ریاستوں کو ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا بند کرنا چاہیے اور متوازن خارجہ پالیسی اپنانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک اختلافات کو اجاگر کرنے کی بجائے مشترکات کو آگےلے کر چلیں اور ان سے فائدہ اٹھانے کو ترجیح دیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مستقبل میں پاکستان کے لیے افغانستان میں سرمایہ کاری کے بہت سے مواقع موجود ہیں، جس کے پاس لاکھوں ڈالرز کے وسائل ہیں۔

سید نذیر نے اس خیال کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان میں توانائی کے شعبے، انفراسٹرکچر کی ترقی، مواصلاتی نیٹ ورک کی تعمیر وغیرہ میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ مزید برآں، ایک دوسرے کو سمجھنے اور اجتماعی طور پر مستحکم اور تعاون پر مبنی دوطرفہ اور علاقائی روابط استوار کرنے کے لیے پرسیپشن مینجمنٹ اولین ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کی جنگ کے بعد امن، استحکام، ترقی اور معاشی استحکام کی طرف منتقلی کا عمل ایک طویل سفر  کا متقاضی ہے۔ تاہم، موجودہ حالات میں درپیش چیلنجوں کے باوجود افغانوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ چیلنجوں کے ساتھ مواقع بھی آتے ہیں، جنہیں مرکز نگاہ بنانا انتہائی ضروری ہے تاکہ قومی صلاحیت کی تعمیرنو کی جا سکے اور اندرونی اور بیرونی  عوامل کے ساتھ  پرامن طریقے سے نمٹا جا سکے۔

انہوں نے اس بات  کو نمایاں کیا کہ  افغانستان اپنے بین الاقوامی عزم کو برقرار رکھتے ہوئے کہ اپنی سرزمین کسی دوسری ریاست کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔ وہ عسکریت پسند تنظیموں اور دیگر دھڑوں پر نظر رکھ کر ،جو ملک کو عدم استحکام کا شکار کر سکتے ہیں، اپنی پالیسیوں کو عصر حاضر کے مطابق بنا تے ہوئے ایک پرامن ماحول پیدا کر سکتا ہے اور جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق متعلقہ اداروں کا قیام عمل میں لا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کو باہمی افہام و تفہیم اور تعاون ،حکمرانی  میں بہتری ، لوگوں کی آزادی، انصاف کے نظام، صحت کے شعبے اور تعلیم کے ذریعے قومی اور سماجی ترقی کے لیے ضروری عناصر  کو فروغ دینے  کے ساتھ ساتھ سرحدی انتظام کے لیے مناسب طریقہ کار تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے