روس یوکرین جنگ: اسباب،حرکیات اور مضمرات

روس یوکرین جنگ: اسباب،حرکیات اور مضمرات

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ روس-یوکرین جنگ نے ورلڈ آرڈر ساکھ اور مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

 Russia-Ukraine-War

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ روس-یوکرین جنگ نے ورلڈ آرڈر ساکھ اور مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

روس اور یوکرین کے تنازع نے نہ صرف دنیا بھر میں سیاسی، سفارتی، اقتصادی، خوراک اور توانائی کا بحران پیدا کیا ہے بلکہ عالمی طاقتوں کےاس دوہرے معیار کو بھی بے نقاب کر دیا ہے جو انہوں نے  بین الاقوامی سیاست اور عالمی حکمرانی کے اصولوں کے حوالے سے  قائم کر رکھے ہیں۔

یہ بات ماہرین نے 30 مارچ 2022 کو آئی پی ایس کے زیر اہتمام ”روس-یوکرین جنگ: اسباب، حرکیات اور مضمرات“ کے موضوع پر ہونے والی ایک روزہ بین الاقوامی کانفرنس میں کہی۔

کانفرنس کے بین الاقوامی مقررین میں سینٹر فار یورو ایشین اسٹڈیز، ایم جی آئی ایم او یونیورسٹی ماسکو کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ایوان سفرنچوک؛ یونیورسٹی آف سینٹرل میسوری میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر اکیس کلیتزیڈیس؛ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز، فوڈان یونیورسٹی  میں پاکستان اسٹڈی سنٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر ژانگ جیگن اور یوکرین انسٹی ٹیوٹ فار دی فیوچر، کیف، میں بین الاقوامی  امور کی تجزیہ کار الیا کوسا شامل تھیں۔

پاکستان کے سرکردہ ماہرین تعلیم، سفارت کار، سیکورٹی اور خارجہ پالیسی کے تجزیہ کاروں بشمول آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن، ڈاکٹر سید رفعت حسین،ایمبیسیڈر (ر) ضمیر اکرم، ایمبیسیڈر (ر)  مسعود خالد، ڈاکٹر عاصمہ شاکر خواجہ، ڈاکٹر خرم اقبال، سید محمد علی، ایمبیسیڈر (ر)  سید ابرار حسین، ایمبیسیڈر (ر) ضمیر اکرم، بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر طغرل یامین، بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر عتیق الرحمٰن، اور بریگیڈیئر (ر) سید نذیر نے بھی اس تنازعہ اور اس کے عالمی، علاقائی اور مقامی مضمرات پر اپنی بصیرت کا اظہار کیا۔

کچھ مقررین نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ یہ تنازعہ ایک طویل عرصے تک جاری رہنے والا معاملہ ہوگا۔ اس بات کو اس حقیقت سے تقویت ملتی ہے کہ روسی قیادت یا فوج  کےابتدائی مرحلے میں جنگ کو ختم کرنے کے خواہاں ہونے کے باوجود، زمینی صورت حال یہ ہے کہ فوجی ہتھیاروں  اور تقریباً 50,000 غیر ریاستی عناصر کی یوکرین میں موجودگی ایک انتہائی تشویشناک منظر پیش کر رہی ہے۔

جنگ کوئی انتخاب نہیں بلکہ شاید ایک تزویراتی مجبوری ہے جسے ماسکو نے متعدد وجوہات کی بنا پر محسوس کیا ،جن میں گلوبل ورلڈ آرڈر سے لے کر نیٹو کی توسیع تک کے چیلنجز اور یوکرین کی سیاسی قیادت اور اس کی پالیسیوں سے متعلق خدشات شامل ہیں۔

مقررین نے اپنا نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے لیے یہ ایک نظریاتی تنازعہ ہے، جس میں تشدد کا عنصر ایک تکلیف دہ صورت حال کی نشاندہی کر رہا ہے جو امریکہ کی قیادت میں مغربی اتحاد، روس کے لیے پیدا کر سکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ روس نے اس جنگ کے بارے میں غلط اندازے لگائے تھے کیونکہ مغربی دنیا کی یوکرین میں حرکیاتی حکمت عملی یا آپریشنل میدان جنگ سے  پہلے کئی علاقوں میں بگڑے حالات کو مستقل انداز میں برقرار رکھنے کی صلاحیت ماسکو کے لیے اپنے مقاصد کو حاصل کرنا بہت مشکل بنا دے گی۔

مقررین نے کہا کہ چین اس تنازع کو بہت زیادہ تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے کیونکہ  اس میں مواقع سے زیادہ  چیلنجز درپیش ہیں۔ ایک کمزور روس چین کے مفاد میں نہیں ہے۔ مزید برآں، نیٹو کی بحالی اور دوبارہ اسلحہ سازی بھی بالواسطہ طور پر مستقبل کے امکانات کے لحاظ سے بیجنگ کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ایک اور پہلو یہ ہے کہ اگرچہ چین اپنی عالمی اقتصادی ترقی کو برقرار رکھنا چاہتا ہے لیکن مغرب کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو خراب کرنے کی قیمت پر نہیں۔

مقررین نے کواڈ کی اٹھان، انڈو پیسیفک حکمت عملی اور کواڈ2.0 کے حالیہ عروج پر بھی روشنی ڈالی۔ اگر ان سب عوامل کو اکٹھا کیا جائےتو ان میں سے زیادہ تر  کا مقصد چین کو قابو میں رکھنا اور اس کے عالمی عروج کو روکنا ہے۔ اس تنازعہ نے شاید واشنگٹن کو یاد دلایا ہے کہ وہ اپنی طاقت کا بڑا حصہ صرف ایشیا پیسیفک پر مرکوز کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا اور اسے مغرب اور یورپ کے لیے بھی سلامتی کے عزم کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔

علاقائی تناظر میں، بھارت کو ایک تبدیلی کے عمل میں دیکھا گیا کیونکہ اس کی فوجی قوتیں اپنی تکنیکی اور آپریشنل ضروریات کو پورا کرنے کے لیے روس پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں لیکن امریکا کے ساتھ بڑھتے ہوئے سفارتی اور اقتصادی تعلقات کی وجہ سے اسے بہت مشکل چیلنج کا سامنا ہے۔ اس طرح دہلی کے لیے ان متضاد چیلنجوں کو متوازن کرنا کافی مشکل ہوگا۔

مسلم دنیا پر زور دیا گیا کہ وہ خود کا جائزہ لیں کیونکہ ان پر 20 سال سے زیادہ عرصے سے دہشت گردی کا الزام لگایا جا رہا ہے لیکن مشرقی یورپ میں ابھرنے والی یہ حقیقت انہیں  یہ باور کراتی ہے کہ دوسری تہذیبیں اور اقدار کے نظام غیر ریاستی عناصر اور عسکریت پسند تنظیموں کو کس انداز سے لیتے ہیں، جب انہیں چیلنج کیا جاتاہے اورمغرب سے مغلوب میڈیا اسے کس طرح پیش کرتا ہے۔

کانفرنس کے دوران پیش کی گئی یوکرین کی جنگ کے پورے مکمل تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بیک وقت پانچ شعبوں میں چل رہی ہے: شناخت، معاشرہ، معیشت، سیاست اور سلامتی۔

شناخت کے لحاظ سے یہ نسل، مذہب اور قوم پرستی کے لیے بیک وقت ایک چیلنج ہے۔ مغربی اتحاد اسے روسی آرتھوڈوکس عیسائیت میں پیدا ہونے والی مایوسی کے طور پر دیکھتا ہے جسے مغربی عالمی نظام کے چیلنج کا سامنا ہے اور جو کہ  پروٹسٹنٹ اور کیتھولک ہیں۔

سماجی پہلو کو عالمگیریت اور مختلف تہذیبوں، معاشروں، لوگوں، ثقافتوں اور معیشتوں کے باہم مربوط ہونے کے دائمی عمل کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ یہ شاید سب سے بڑا چیلنج ہے جس کا سامنا عالمگیریت کو انسداد عالمگیریت کی تحریک کی طرف سے  کرنا پڑ رہا ہے۔

اقتصادی پہلو صرف پابندیوں کے دور میں ہی نہیں بلکہ تجارتی اور کرنسی کی جنگوں میں بھی اثر انداز ہو رہا ہے اور بیجنگ کو اس تشویش کا سامنا ہے کہ  اسے اقتصادی توسیع اور عالمی اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے برآمدات کے حجم کو برقرار رکھنا ہے جس کا بہت زیادہ انحصار مغربی یورپ اور امریکہ پر ہے جہاں کی مارکیٹ میں اس کی برآمدات    کی مالیت 600 بلین ڈالر سے زیادہ ہے۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ترقی پذیر دنیا اور حکومتوں کے لیے، خاص طور پر کووِڈ بحران کے فوراً بعد، ایک بہت بڑا چیلنج ہیں۔

سیاسی میدان میں، یہ موجودہ عالمی نظام کا سب سے بڑا امتحان ہے اوران نظریاتی طاقتوں، احیاء پسند قوتوں اور ریاستوں کے درمیان ایک پیچیدہ مقابلہ ہے جو قوم پرستی کی بنیاد پر شناخت کرنا چاہتی ہیں۔ یہ ایک مایوس اور مشتعل روس کی طرف سے جمود کے عالمی نظام کے لیے ایک نظریاتی چیلنج ہے جو اپنی اقتصادی، سیاسی اور سٹریٹجک بحالی کےبل بوتے پر احترام چاہتا ہے۔

سیکیورٹی پہلو سے،یہ تنازعہ نیٹو کے احیاء اور از سر نو اسلحہ بندی کا باعث بنا ہے، جو چین اور روس کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اس نے مغربی یورپ پر روسی توانائی پر انحصار کے تصورکو بھی کم کر دیا ہے اور مشرقی یورپ کےمنظر نامے میں بھرپور طاقت کے مقابلے پرروایتی جنگ کو بحال کر دیاہے۔

اس کانفرنس کے دوسرے سیشن کی صدارت کرتے ہوئے چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن نے کہا کہ اس تنازعہ نے عالمی نظام کے اندر موجود دوغلے پن کو بے نقاب کر دیا ہے جس میں مسلم ممالک پر مغربی جارحیت کو جائز سمجھا جاتا اوراسےبرداشت کیا جاتاہےلیکن مغربی دنیا کے خلاف ایسا ہیں کیا جاتا۔

ایمبیسیڈر (ر) ضمیر اکرم کا خیال تھا کہ روس نیٹو کے مشرق کی طرف پھیلاؤ سے ناراض ہے اور اس نے مغربی قیادت میں عالمی نظام کو چیلنج کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مغربی پابندیاں پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے معاملے میں ماسکو کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے امکانات کو متاثر کر سکتی ہیں۔

اپنے اختتامی کلمات میں پروفیسر ڈاکٹر رفعت حسین نے کہا کہ یوکرین کے عوام، جو اس تنازعے کی وجہ سے مصائب کا شکار ہیں ،بین الاقوامی ہمدردی اور حمایت کے مستحق ہیں۔

وائس چیئرمین آئی پی ایس  ایمبیسیڈر (ر)  ابرار حسین نے کہا کہ یوکرین کے تنازع نے دنیا بھر میں معاشی، توانائی اور خوراک کا بحران پیدا کر دیا ہے جس سے پاکستان سمیت تمام ممالک متاثر ہوئے ہیں۔

نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ڈاکٹر خرم اقبال نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ یہ تنازعہ امریکی استثنیٰ کے لیے روسی چیلنج کی نمائندگی کرتا ہے جس کا مغربی دنیا عسکریت پسندوں کے ذریعے یوکرین کی حکومت کی حمایت کرکے مقابلہ کر رہی ہے، جس سے دنیا کی طرف سے مسلم دنیا پر  ضرورت سے زیادہ توجہ کو ہٹانے کا موقع فراہم  ہو رہا ہے۔

روسی اسکالر ڈاکٹر ایون سفرنچوک نے کہا کہ مغربی طاقتیں سلامتی اور خوشحالی کے معاملے میں اپنے لیے ایک اور دوسرے ممالک کے لیے دوسرا اصول نہیں رکھ سکتیں اور روس اب اس متضاد مغربی نقطہ نظر کو پزیرائی دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

امریکی ماہر ڈاکٹر اکیس کلیتزیڈیس نے یوکرین کی جنگ کو امریکا کے لیے ایک نظریاتی تنازع قرار دیا جسے محض جغرافیائی سیاسی تناظر میں نہیں دیکھا جانا چاہیے ،جبکہ روس اس فوجی آپریشن کے ذریعے دنیا کو دکھانا چاہتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر واپس آچکا ہے۔

چینی پروفیسر ژانگ جیگن نے کہا کہ یہ تنازعہ بیجنگ کے لیے مواقع سے زیادہ چیلنجز پیش کررہا ہے اور اگرچہ مغربی طاقتیں چین کو روس کے ساتھ کھڑا دیکھتی ہیں ،لیکن کمزور روس چینی مفاد میں نہیں ہے۔

ڈاکٹر عاصمہ شاکر خواجہ کا خیال تھا کہ ہندوستان کو روس کے ساتھ اپنے انتہائی قریبی دفاعی تعاون کو برقرار رکھنے اور اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ساتھ گہرے اور طویل مدتی اسٹریٹجک اور سفارتی تعلقات استوار کرنے کے لیے ایک پیچیدہ مخمصے کا سامنا ہے۔

ایمبیسیڈر (ر) مسعود خالد نے کہا کہ بیجنگ پرامن تصفیے کا حامی ہے۔ وہ یوکرین کی پیچیدہ تاریخ کو تسلیم کرتا ہے اور طاقت کے استعمال یا پابندیوں کی حمایت نہیں کرتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چین مغربی طاقتوں پر روسی عدم اعتماد کے ساتھ کھڑا ہے،لیکن  سلامتی پر منفی ا ثرات اور اقتصادی مضمرات کی وجہ سے بیجنگ اس تنازع کو خدشات کی نظر سے دیکھتا ہے۔

سید محمد علی نے کہا کہ اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی چیلنجوں کے باوجود یوکرین کا تنازعہ چین کے لیے ایک اسٹریٹجک ریلیف پیش کرتا ہے، کیونکہ اب مغربی طاقتوں کو ایشیا پیسیفک میں صرف بیجنگ کو مرکز بنا کر اپنی مضبوط طاقت کا اظہار مشکل ہو جائے گا ۔ اب انہیں یورپ کے لیے سیکورٹی کے وعدوں کو مذید بہتر بنانا ہو گا۔

ڈاکٹر باقرے نجم الدین نے کہا  کہ مسلم معاشروں کو بین الاقوامی بحرانوں کے دوران اپنے خدشات کو دور کرنے کے لیے متبادل انتظامات، جیسے مانیٹری یونین اور مشترکہ مارکیٹ کے بارے میں سوچنا شروع کر دینا چاہیے۔

یوکرین کے اسکالر الیا کوسا نے دعویٰ کیا کہ روس بڑی حد تک ناکام ہو چکا ہے اور وہ کبھی بھی جنگ میں اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکے گا، جسے انہوں نے ’مس ایڈونچر‘ قرار دیا۔

بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر عتیق الرحمٰن نے کہا کہ عالمی بینکنگ سسٹم اور عالمی انرجی سپلائی کا سلسلہ اس تنازع کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ کی وجہ سے عالمی بینکنگ سسٹم میں ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ پھنس گئے ہیں۔

بین الاقوامی کانفرنس میں بڑی تعداد میں سفارت کاروں، سکالرز، سیکورٹی ماہرین اور طلباء نے شرکت کی جبکہ دنیا بھر سے آن لائن شرکاء بھی اس کا حصہ تھے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے