پالیسی، قانون سازی اور نظام: ابتری ،تشخیص اور علاج

پالیسی، قانون سازی اور نظام: ابتری ،تشخیص اور علاج

 

مصنّف: پروفیسرخورشید احمد
ایڈیٹر: خالد رحمٰن
زبان: اردو
سال: 2022
ایڈیشن: پہلا
جلد: مجلّد
صفحات: 258
قیمت:  700 روپے | 15 امریکی ڈالر [ایکسپورٹ]
آئی ایس بی این: 1-827-448-969-978
پبلشر: آئی پی ایس پریس

ارمغانِ خورشید سیریز
فہرستِ مضامین

کتاب کا تعارف

کسی بھی قانون کی تشکیل میں شفافیت اور معاشرہ کے مختلف طبقات یا ان کے نمائندوں کی شرکت، اس کی قبولیت اور اس پر عملدرآمد کے امکانات بڑھاتی ہے۔  انسانی زندگی کے دائرہ میں آنے والی وسعتوں اور تنوع نے اس ضرورت کو بھی اہم کردیا ہے کہ ہرقانون کی تشکیل کے وقت یہ اہتمام کیا جائے کہ وہ مجموعی طور پر دیگر تمام قوانین سے ہم آہنگ ہو۔ اسلامی تناظر میں دیکھا جائے تو قانونی ڈھانچہ ہی نہیں پورا ریاستی نظام  قرآن وسنت کی روشنی میں’مقاصد شریعۃ‘’ کے حصول کے لیے تشکیل دیا جاتا ہے جن میں دین اور ایمان کی حفاظت، انسانی جان اور عزت کی حفاظت،عقل کی حفاظت،نسل و نسب کی حفاظت اور مال کی حفاظت شامل ہیں۔ اس اعتبار سے مسلمانوں کی کسی بھی اجتماعیت کے لیے قانون سازی میں اس نکتہ کی کلیدی اہمیت  بن جاتی ہے۔

آٹھ ابواب پرمشتمل اس کتاب میں واضح کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے ارکان  کی غیر سنجیدگی کس طرح قانون سازی اور اس پر عملدرآمد  کو متاثر کرتی ہے۔دوسرا باب بالخصوص تحفظ نسواں قانون سے بحث کرتا ہے۔ اگلے تین ابواب میں قدرتی آفات،   انسانی جان کی حفاظت اور امن وامان کی صورت حال  کے تناظر  میں متعدد عنوانات پر  بننے والے قوانین پر گفتگو کی گئی ہے۔ چھٹاباب میرٹ کی خلاف ورزی اور ناانصافی پر مبنی امتیازی فیصلوں سے متعلق ہے ۔ جبکہ آخری دو ابواب سفارت کاری کے دائرے میں سامنے آنے والے بعض اہم واقعات پر تبصرہ اورذرائع ابلاغ کے طرزعمل اور ان کے حوالہ سے حکومتی  رویہ  سے متعلق ہے۔

پروفیسر خورشید احمد کی تقاریر اور مضامین پر مشتمل ’’ارمغانٍ خورشید سیریز‘‘ کے عنوان سے آئی پی ایس پریس کی یہ دسویں کتاب ہے۔ اس سیریز میں اب تک  درج ذیل کتب   شائع  ہو چکی  ہیں:

  • پا کستان  کی نظریاتی اساس ،نفاذ شریعت  اور مدینہ کی اسلامی ریاست
  • دہشت گردی کے خلاف جنگ،پاک امریکہ تعاون اور اس کے اثرات   (جلد اول)
  • دہشت گردی کے خلاف جنگ،پاک امریکہ تعاون اور اس کے اثرات   (جلد دوم)
  • اسلام اور مغرب کی تہذیبی و سیاسی کشمکش
  • آئین- اختیارات کا توازن اور طرزِ حکمرانی
  • پاکستانی معیشت کی صورتحال: مسائل ،اسباب اور لائحہ عمل
  • آئین پاکستان: انحرافات اور بحالی کی جدوجہد
  • بلوچستان کی صورت حال:  مسائل کی نوعیت، اسباب اور حل
  • پاکستان کا جمہوری سفر: پارلیمنٹ کا کردار اور روایات

مصنّف کا تعارف

معروف مدبر و مفکر، سیاستدان، ماہرِ اقتصادیات، مصنف اورمحقق پروفیسر خورشید احمد (پیدائش: ۲۳مارچ۱۹۳۲، دہلی)  کا شمار ان پاکستانی شخصیات میں ہوتا ہے جو عالمی سطح پر پاکستان اور اُمتِ مسلمہ کے وکیل کی شناخت رکھتے ہیں۔  وہ ایک ایسے  دانشور اوررہنما  ہیں جن سے فکری اور سیاسی اختلاف رکھنے والے بھی ان کے اخلاص، علمیت اور حب الوطنی کے قائل ہیں۔

پروفیسرخورشیداحمد۱۹۸۵سے۲۰۱۲ تک ایک مختصر وقفہ کے علاوہ ۲۲ سال سینیٹ کے رکن اور۱۹۷۸  میں وزیر منصوبہ بندی اور پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین رہے ۔ ۱۹۷۹ میں آپ نے اسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی بنیاد رکھی اور ۲۰۲۱   تک اس کے چئیرمین کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ آپ  بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی   کے بنیادی ٹرسٹی، مارک فیلڈ انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن،لیسٹر، برطانیہ ،  یونیورسٹی  آف مینجمنٹ سائنسز  لاہور کے بورڈ آف گورنرز اور اسلامک فاؤنڈیشن ، برطانیہ کے چیئرمین بھی رہے ۔

پروفیسر خورشیداحمد نے اردو ، انگریزی میں سوسے زائد کتب تدوین و  تصنیف  کی ہیں ۔ آپ  کی کتب اور مضامین کو عربی، فرانسیسی، ترکی، بنگالی، جاپانی، جرمن، انڈونیشین ، ہندی ، چینی ، کورین  اور فارسی  کے علاوہ دیگر کئی زبانوں  میں ترجمہ کر کے شائع کیا گیا ۔

پروفیسرخورشید احمد پر ملائشیاء ، ترکی اور جرمنی کی ممتاز جامعات میں پی  ایچ ڈی کے مقالات لکھے گئے ۔ جبکہ ان کی تعلیمی و تحقیقی خدمات کے اعتراف میں ملایا یونیورسٹی ملائشیاء نے ۱۹۸۲میں تعلیم  ،لغبرہ یونیورسٹی برطانیہ نے  ۲۰۰۳ میں ادب اور   بین الاقوامی اسلامی   یونیورسٹی  ملائشیاء نے ۲۰۰۶ میں انہیں اسلامی معاشیات پر پی ایچ ڈی کی اعزازی اسناد عطا کیں ۔

پروفیسر خورشید احمد کو معاشیات اسلام میں گراں قدر خدمات انجام دینے پر اسلامی ترقیاتی بنک نے ۱۹۸۹ء میں اپنا اعلیٰ ترین ایوارڈ دیا جبکہ بینالاقوامی سطح پر اسلام  کیلیے خدمات انجام دینے پر سعودی حکومت نے ۱۹۹۰ء میں انہیں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا۔ اسکے علاوہ حکومت پاکستان نے 2010ء میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں  اعلیٰ شہری اعزاز  ’’نشانِ  امتیاز‘‘عطا کیا ۔

 

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے