پاکستانی معیشت کی صورتحال: مسائل، اسباب اور لائحہِ عمل

پاکستانی معیشت کی صورتحال: مسائل، اسباب اور لائحہِ عمل

پروفیسر خورشید احمد نے سینیٹ آف پاکستان کے رکن کی حیثیت سےکم وبیش ۲۱سال خدمات انجام دی ہیں۔ معاشیات ان کا خصوصی میدان ہے،

ایڈیٹر: خالد رحمٰن
زبان: اردو
جلد: غیر مجلّد
سال/ایڈیشن: 2021
صفحات: 286
         978-969-448-809-7آئ ایس بی این:
قیمت: 680 روپے  | 15 ڈالر [امریکہ]
پبلشر: آئی پی ایس پریس

فہرستِ مضامین 

Pakistani-Maeshat-ki-Sorat-e-Hal-title

کتاب کا تعارف

پروفیسر خورشید احمد نے سینیٹ آف پاکستان کے رکن کی حیثیت سےکم وبیش ۲۱سال خدمات انجام دی ہیں۔ معاشیات ان کا خصوصی میدان ہے، چنانچہ ملک کی دگر گوں معاشی صورتحال، نظام کی خرابیاں اور اصلاح احوال کے لیے تجاویز سینیٹ میں ان کی گفتگوؤں اور تقاریر کا مسلسل عنوان رہا ہے۔ زیر نظر کتاب پروفیسر صاحب کی ان ہی میں سے کچھ منتخب تقاریر پر مشتمل ہے تقاریر کاانتخاب کرتے وقت یہ پہلو سامنے رہا ہے کہ تقریر مختصر ہو یا نسبتاً طویل، اس میں کہی گئی بات کی محض وقتی اہمیت نہ ہو بلکہ وہ آج کے پالیسی مباحث میں بھی اہمیت کی حامل ہو۔ چنانچہ کتاب کا عنوان پیش نظر رکھا جائے تو اس عنوان کی روشنی میں کتاب کے ہرباب میں مسائل اور اسباب کے ساتھ ساتھ لائحہ عمل کی بھی نشان دہی ہوئی ہے۔

کتاب کا پہلا حصہ ان بڑے عنوانات سے متعلق ہے جو مجموعی معاشی  حکمت عملی، معاشی منصوبہ بندی اور پالیسیوں کی تشکیل میں کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے مقابلہ میں دوسرا حصہ مختلف سالوں میں پیش ہونے والے سالانہ بجٹ کے پس منظر میں تبصرہ اور تجاویز پر مشتمل ہے۔ ان میں وہ تجاویز بھی علیحدہ سے شامل ہیں جو پروفیسر خورشید احمد نے مجموعی طور پر سینیٹ یا اس کی کمیٹی کے نمائندہ کے طور پر پیش کی ہیں۔   کتاب کا تیسرا حصہ بعض متفرق لیکن اہم موضوعات پر انفرادی عنوانات کے تحت بحث پر مبنی ہے۔

   پروفیسر خورشید احمد کی یہ کتاب پاکستان کی سیاسی و معاشی تاریخ اور آج کے پاکستان پر اس کے اثرات کو بیان کرتی ہے۔ اس اعتبار سے یہ پالیسی سازوں کے لیے ایک آئینہ ہے اور طلباء ، اساتذہ اور معاشیات کے موضوع پر تحقیق کرنے والوں کے لیے ایک اہم کتاب ہے۔

پروفیسر خورشید احمد کی تقاریر اور مضامین پرمشتمل’ ارمغانِخورشید سیریز ‘کے عنوان سے آئی پی ایس  پریس کی یہ چھٹی کتاب ہے۔ اس سیریز  میں  درج ذیل کتب بھی شامل ہیں:

– پاکستان  کی نظریاتی اساس ،نفاذ شریعت  اور مدینہ کی اسلامی ریاست
– دہشت گردی کے خلاف جنگ،پاک امریکہ تعاون اور اس کے اثرات [جلد اول]  
– دہشت گردی کے خلاف جنگ،پاک امریکہ تعاون اور اس کے اثرات [جلددوم]  
– اسلام اور مغرب کی تہذیبی و سیاسی کشمکش
– آئین – اختیارات کا توازن اور طرزِ حکمرانی
– آئین پاکستان: انحرافات اور بحالی کی جدوجہد

مصنّف کا تعارف

معروف مدبر و مفکر، سیاستدان، ماہرِاقتصادیات، مصنّف اور محقق پروفیسر خورشید احمد کا شمار ان پاکستانی شخصیات میں ہوتا ہے جو عالمی سطح پر پاکستان اور اُمتِ مسلمہ کے وکیل کی شناخت رکھتے ہیں۔ ان کا ایک بڑا تعارف جماعت اسلامی سے ان کی دیرینہ وابستگی ہے، تاہم وہ ایک ایسے  دانشور اور رہنما  ہیں جن سے فکری اور سیاسی اختلاف رکھنے والے بھی ان کے اخلاص، علمیت اور حب الوطنی کے قائل ہیں۔

پروفیسرخورشیداحمد۱۹۸۵سے۲۰۱۲ تک ایک مختصر وقفہ کے علاوہ ۲۲ سال سینیٹ کے رکن اور۱۹۷۸  میں وزیر منصوبہ بندی اور پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین رہے ۔ ۱۹۷۹ میں آپ نے اسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی بنیاد رکھی اور ۲۰۲۱   تک اس کے چئیرمین کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ آپ  بینالاقوامی اسلامی یونیورسٹی   کے بنیادی ٹرسٹی، مارک فیلڈ انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن،لیسٹر، برطانیہ ،  یونیورسٹی  آف مینجمنٹ سائنسز  لاہور کے بورڈ آف گورنرز اور اسلامک فاؤنڈیشن ، برطانیہ  کے چیئرمین بھیرہے ۔

پروفیسر خورشیداحمد نے اردو ، انگریزی میں سوسے زائد کتب تدوین و  تصنیف  کی ہیں ۔ آپ  کی کتب اور مضامین کو عربی، فرانسیسی، ترکی، بنگالی، جاپانی، جرمن، انڈونیشین ، ہندی ، چینی ، کورین  اور فارسی  کے علاوہ دیگر کئی زبانوں  میں ترجمہ کر کے شائع کیا گیا ۔

پروفیسرخورشید احمد پر ملائشیاء ، ترکی اور جرمنی کی ممتاز جامعات میں پی  ایچ ڈی کے مقالات لکھے گئے ۔ جبکہ ان کی تعلیمی و تحقیقی خدمات کے اعتراف میں ملایا یونیورسٹی ملائشیاء نے ۱۹۸۲میں تعلیم  ،لغبرہ یونیورسٹی (Lough borough) برطانیہ نے  ۲۰۰۳ میں ادب اور   بین الاقوامی اسلامی   یونیورسٹی  ملائشیاء نے ۲۰۰۶ میں انہیں اسلامی معاشیات پر پی ایچ ڈی کی اعزازیاسناد  عطا کی گئیں ۔

پروفیسر خورشید احمد کو معاشیات اسلام میں گراں قدر خدمات انجام دینے پر اسلامی ترقیاتی بنک نے ۱۹۸۹ء میں اپنا اعلیٰ ترین ایوارڈ دیا جبکہ بینالاقوامی سطح پر اسلام  کیلیے خدمات انجام دینے پر سعودی حکومت نے ۱۹۹۰ء میں انہیں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا۔ اسکے علاوہ حکومت پاکستان نے 2010ء میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں  اعلیٰ شہری اعزاز  ’’نشانِ  امتیاز‘‘عطا کیا گیا ۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے