‘گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ | سیمینار : پاکستان میں سیاسی نظام اور گورننس’

‘گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ | سیمینار : پاکستان میں سیاسی نظام اور گورننس’

سیاسی اور گورننس کے بحران سے نمٹنے کے لیے ماہرین کا آئینی بالادستی، انتخابی اصلاحات، اخلاقیات اور ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور

آئین کی بالادستی، شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات، قانون کی حکمرانی، عوامی خدمات کی فراہمی پر توجہ، لیڈرشپ ڈویلپمنٹ، اپنی ذمہ داری اور ملکیت کو اپنانا، شہریت کے بارے میں آگاہی، مغربی ماڈلز کو اپنانے کے بجائے پاکستان کے سماجی و سیاسی کلچر کی حقیقتوں پر مبنی شراکتی حکومت، اور ریاست کی تمام سطحوں پر حکمرانی کے لیے موثر نظام بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کا زیادہ سے زیادہ استعمال وہ اہم خیالات تھے جو نامور پالیسی پریکٹیشنرز اور ماہرین تعلیم نے انسٹی ٹیوٹ اف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) اور اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (اِپری) کے مشترکہ طور پر زیرِ اہتمام 3 نومبر 2022 کو منعقد ہونے والی ایک سیمینار میں کیا۔

‘پاکستان میں سیاسی نظام اور گورننس’ کے عنوان سے منعقد ہونے والا یہ سیشن اِپری کی جانب سے حال ہی میں شروع کیے گئے ‘گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ’ کا حصہ تھا، جس کا مقصد متعدد قومی مسائل پر ماہرین تعلیم، دانشوروں اور پریکٹیشنرز سے ان کی آراء اور نظریات لینا تھاتاکہ ان کو قابلِ عمل سفارشات کی شکل دے کر انہیں پالیسی سازوں کے سامنے پیش کیا جا سکے۔

چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن کی زیر صدارت اور اِپری کے ڈائریکٹر ریسرچ بریگیڈیئر (ر) راشد ولی جنجوعہ اور آئی پی ایس کے وائس چیئرمین سابق سفیرسید ابرار حسین کی مشترکہ میزبانی میں منعقدہ سیمینار سے سابق وفاقی سیکرٹری سید ابو احمد عاکف (ایس آئی) ، سابق ممبر گورننس، پلاننگ کمیشن آف پاکستان ڈاکٹر سید طاہر حجاز ی ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کی ایسوسی ایٹ پروفیسر/چیئر پرسن، شعبہ بشریات ڈاکٹر نورین سحر ، حکومتِ پاکستان کی وزارتِ نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن کے صحت سہولت پروگرام کے سی ای او محمد ارشد ، اور پلاننگ کمیشن آف پاکستان میں مشیر سمندری اُمور جواد اختر کھوکھر نے خطاب کیا، جبکہ آئ ایس کے جنرل مینیجر آپریشنز نوفل شاہ رخ نے نشست کی نظامت کی۔

بحث کا آغاز کرتے ہوئےابو عاکف نے پاکستان میں گورننس کے کمزوری کا باعث بننے والے کئی اندرونی اور بیرونی عوامل پر روشنی ڈالتے ہوئے سوالات کا ایک سلسلہ پیش کیا۔ انہوں نے معاشی بدانتظامی، سیاسی بدانتظامی، بگڑتی ہوئی سول سروسز، سول ملٹری تعلقات، اندرونی تنازعات، لاقانونیت، انتہا پسندی، عسکریت پسندی، عدم برداشت، بڑھتے ہوئے قرضوں، بیرونی طاقتوں اور جغرافیائی سیاسی حالات کو ریاست کی افسوسناک حالت کے پیچھے کچھ وجوہات قرار دیا۔ انہوں نے سوچ کو نتیجہ خیز اور تعمیری انداز میں تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی مسئلے کو اُسی سوچ سے حل نہیں کیا جاسکتا جو اس کی پیدا ہونے کی وجہ بنی ۔

محمد ارشد نے عاکف کے خیالات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں سب کچھ برا نہیں ہے اور اس کے پچھتر سال کے سفر میں کامیابی کی کئی کہانیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی چند نمایاں مثالیں تھیں، لیکن ملک نے کچھ دیگر شعبوں میں بھی قابل ستائش پیش رفت دیکھی ہے جبکہ گورننس اور عوامی خدمات کی فراہمی کے لیے آئی سی ٹی کو استعمال کرنے کی قومی صلاحیت بہت سے ترقی یافتہ مملک کےبرابر ہے۔

اسپیکر نے صحت سہولت پروگرام کی کامیاب منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کو بذات خود ایک کامیابی قرار دیا کیونکہ یہ ملک بھر کے 1036 ہسپتالوں کے ذریعے 170 ملین افراد کو صحت کی خدمات فراہم کر رہا ہے۔ ان کے بقول انشورنس چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے اس طرح کے ماڈل کی مثال جی 7 ممالک میں بھی نہیں دیکھی گئی، جبکہ یہ حقیقت کہ یہ سب کچھ سیاسی موافقت کے ساتھ کیا گیا، اس کامیابی کو مزید میٹھا بناتا دیتا ہے۔ اسپیکر نے کہا کہ یہ ایک اور کامیابی کی مثال ہے جسے دوسرے شعبوں میں بھی نقل کیا جاسکتا ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ دستیاب وسائل کو درست طریقے سے استعمال کیا جائے اور جامع طرز حکمرانی کے حقیقی ماڈل کو اپنایا جائے جہاں ہر فرد کو ایک مخصوص کردار ادا کرنا ہو، جس کے لیے وہ ملکیت بھی لے اور ذمہ دار اور جوابدہ بھی بنے۔

کھوکھر نے گوادر کے نقطہ نظر سے بات کرتے ہوئے گوادر بندرگاہ اور شہر کے انضمام، سفر، رابطے اور تربیت کے شعبوں میں درپیش چیلنجز کی نشاندہی کی۔ دوسری جانب انہوں نے علاقے میں چینی اداروں کی مدد اور وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کی سطح پر تمام اسٹیک ہولڈرز کی شراکت سے کچھ کامیابیوں پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اب مقامی لوگوں کے حقیقی، بنیادی مطالبات کا خیال رکھا جا رہا ہے اور ماضی کی غلطیوں کو زیادہ تر سدھار لیا گیا ہے۔

ڈاکٹر حجازی نے نادرا کا تذکرہ گڈ گورننس کے سہولت کار اور کیٹالِسٹ کے طور پر ملک کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔

ڈاکٹر سحر نے اپنی ثقافت کے بارے میں منفی اور مایوسی کو ایک بیماری قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ قومیں اچھے اور برے وقت کا سامنا کرتی ہیں لیکن ہم زینو سینٹرازم کا سامنا کر رہے ہیں، جو کہ ففتھ جنریشن وارفئیر کا ہدف بھی ہے اور نتیجہ بھی۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں وسیع قدرتی اور ثقافتی تنوع موجود ہے لیکن اصل مسئلہ ملکیت کا فقدان اور بٹی ہوئی ترجیحات ہے۔ 60 فیصد نوجوانوں کی آبادی کے ساتھ، پاکستان اپنے عصری وسائل میں انتہائی امیر ہے اور اسے صرف اہلیت کو ترجیح میں لانے کی ضرورت ہے۔ اس دور میں جہاں ملک کو تقسیم کرنے کے لیے پراکسی جنگ چھیڑی جا رہی ہے، ہمیں اجتماعیت اور نیٹ ورکنگ کی اپنی طاقتوں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔

خالد رحمٰن نے متناسب جمہوریت کے لیے انتخابی اصلاحات، بلدیاتی نظام کو مضبوط بنانے اور صحت مند جمہوریت کی نرسری کے طور پر طلبہ یونینز، انٹرا پارٹی ڈیموکریسی، گورننس کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال اور ڈیجیٹلائزیشن، چھوٹی انتظامی اکائیوں اور مالیاتی منتقلی کی وکالت کرتے ہوئے نشست کا اختتام کیا۔

انہوں نے آئین پاکستان کی پالیسی کے اصولوں پر بھی روشنی ڈالی جو ہر سطح پر ملکی نظم و نسق کے لیے ضروری اخلاقیات اور اقدار کے فریم ورک کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے شعبوں میں اصلاحات کی ضرورت ہے لیکن آئین کا ہمیشہ تحفظ ہونا چاہیے اور پارلیمنٹ کو مضبوط ہونا چاہیے۔ گورننس کے ہائبرڈ ماڈل کو بغیر کسی تنازعہ اورمعاملات کے بگڑےبتدریج ختم کیا جانا چاہیے ۔ اس کے علاوہ اپنی توانائیوں کو ایک دوسرے کو انگلی اٹھانے پر ضائع ہونے کی بجائے اجتماعی طور پر مسائل سے نکلنے کے لیے بروئے کار لانا چاہئیں۔

رحمٰن نے نشست کے اختتام پر یہ بھی رائے دی کہ ہمیں بائی فوکل لینس کے ذریعے دیکھنے کی ضرورت ہے، جس کے ذریعے ہم اپنی کمزوریوں اور طاقتوں دونوں کو دیکھ سکیں۔ دوسری طرف ہمیں اپنی کوہتایوں سے انکار ی بھی نہیں ہونا چاہیے، اور کسی بھی الزام تراشی سے گریز کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کی ملکیت لینا شروع کر دینا چاہیے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے