ابھرتا ہوا جغرافیائی و سیاسی منظر نامہ اور گرے ہائیبریڈ تنازعات کے خطرات:پاکستان کے تناظر میں

hybrid

ابھرتا ہوا جغرافیائی و سیاسی منظر نامہ اور گرے ہائیبریڈ تنازعات کے خطرات:پاکستان کے تناظر میں

 گرے ہائیبریڈ تنازعات ہمارےوقت کا سب سے بڑا جنگی چیلنج ہے ; جنرل زبیر محمود حیات

Emerging-Geo-Political-Environment

اگرچہ ’’ گرے ہائیبریڈ تنازعات‘‘ کا تصوّر نیا نہیں ہے مگر دور حاضر میں اس نے ایک نئی شکل میں سر اٹھایا ہے ۔اس عمل میں ٹیکنالوجی کے فروغ کا بہت بڑا ہاتھ ہے جو اس ہائیبریڈ لڑائی کے مختلف پہلوؤں کو تقویت دینے میں معاون ثابت ہوئی ہے جیسے کہ معاشی دباؤ ، پابندیاں، پروپیگنڈا ، سیاسی دباؤ، سائبر حربے اور حکومتیں گرانے کی سازشیں وغیرہ۔

ان خیالات کا اظہار جنرل زبیر محمود حیات (نشان امتیاز ملٹری) ،چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی نے 27 نومبر 2018ء کو ایکسپو سنٹر کراچی میں منعقد ہونے والے ایک سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس کا موضوع تھا’’ ابھرتا ہوا جغرافیائی و سیاسی منظر نامہ اور گرے ہائیبریڈ تنازعات کے خطرات: پاکستان کے تناظر میں‘‘۔ یہ سیمینار IDEAS 2018کے پروگرام کا ایک حصہ تھا جس کا انعقاد ڈیفنس ایکسپورٹ پروموشن بیورو (DEPO) اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد  نے باہمی اشتراک سے کیا۔

 دیگر مقررین میں میجر جنرل احمد محمود حیات (چیئرمین DEPO)  ، جناب منیر اکرم (سابق سفیر ،اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب) ،  لیفٹیننٹ جنرل (ر)نعیم خالد لودھی  (ہلال امتیاز ملٹری) ، رسولوو سدولو شکر بایو وچ (سر براہ انسٹی ٹیوٹ فار سٹریجک اینڈ ریجنل سٹڈیز، ازبکستان)  ، ڈاکٹر ایوان سیفران چک  (سینئر رکن ، انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل ریلیشنز، ماسکو سٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل ریلیشنزMGIMO) ، لارس ہلسے (بین الاقوامی شہرت یافتہ جرمن سائبر دفاعی حکمت عملی کے ماہر ) ، جناب جاوید جبار (سابق سینیٹر اور وزیر برائے مواصلات) اور بیرسٹر احمر بلال صوفی (بین الاقوامی قانون کے ماہر ) شامل تھے۔

جنرل زبیرمحمود حیات نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ ’’ گرے ہائیبریڈ تنازعات‘‘  اس دور کے دفاعی اور جنگی حربوں میں سب سے بڑا چیلنج ہے جس کے باعث جنگیں ، میدانِ جنگ  اور افواج تک محدود نہیں رہی ہیں۔ بلکہ یہ غیر روایتی حکمت عملیوں ،غیر رسمی  بھرتیوں اور کثیر جہتی منصوبوں کے ذریعے شکار کی جانے والی ریاست کے نظام، طریقہ کار  اور ڈھانچے کو تباہی سے دو چار  کرنے کی منظم کوشش پر محیط ہیں ۔بندوقوں اور توپوں کی جگہ اب سمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ نے لے لی ہے اور روایتی جنگوں کی جگہ چومکھی حملوں  نے۔ معاشی پابندیاں، سیاسی دباؤ ، پروپیگنڈا  اور بلا اجازت مداخلت اس ہائیبریڈ لڑائی میں جدید ہتھیاروں کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

جنرل زبیرمحمود حیات نے مزید کہا کہ پاکستان کثیر الجہتی ہائیبریڈ لڑائی کے سیاسی، معاشی، معاشرتی  اور نظریاتی پہلوؤں سے اندرونی اوربیرونی محاذوں پر نبردآزما ہے اور ان مخلوط ہائیبریڈ حملوں کا مقصد ہماری ریاست کی ترقی کو ہر پہلو سے زک پہنچانا ہے جن میں بڑےبڑے منصوبوں، تعلیم ، ملکی ساکھ اور قومی بیانیے کو نقصان پہنچانا اہم ہدف ہیں ۔

تاہم انہو ں نے تمام مشکلات کے باوجو دامید افزا نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہوئے  پاکستان کے اس عزم کا اعادہ کیا  کہ وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کےخلاف کامیابی سے جنگ لڑتا رہے گا۔ انہوں نے قوم کے حوصلے کی داد دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح پاکستانی قوم نے بے پناہ تکالیف اور مسائل کا  سامنا  کیا ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے ۔انہوں نے کہا کہ روایتی یا گرے ہائیبریڈ حملے کے بعد قوم کا عزم  پہلے سے مضبوط ہوا ہے  اور قوم کو تقسیم کرنے کی ہر کوشش نے اسے مزید متحد کیا ہے ۔تاہم انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ان ہمہ پہلو ابھرتے  چو مکھی خطرات سے کامیابی سے نمٹنے  کیلئے ضروری ہے کہ جامع اور مؤثر حکمت عملی پر عمل کیا جائے جس میں عوام کو اس معاملے کے اہم پہلوؤں سے اچھی طرح آگاہ کرنا شامل ہے ۔

اس سے قبل اپنے افتتاحی کلمات میں جنرل احمد محمود حیات نے کہا کہ آج کا دفاعی منظر نامہ ، جغرافیائی حکمت عملی، جغرافیائی معاشیات اور جغرافیائی سیاست کے باہمی تعامل سے ترتیب پا رہا ہے ۔عالمی  طاقتوں  کی باہمی چپقلش نے جس صورت حال کو جنم دیا ہے اس نے پرانے یک قطبی نظام  کو ہلا کر رکھ دیا ہے  جس کی وجہ سے دنیا میں آج بے یقینی  اورجارحیت  بڑھ چکی ہے جو خطرے کی علامت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان بھی عالمی قوتوں کی اس کشمکش سے متاثر ہوا ہے  اور اس کی ارضی تزویراتی صورتحال  پر بے حد اثرات مرتب ہوئے ہیں۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس نئے ابھرتے ہوئے منظر نامے کی مکمل تفہیم کے ساتھ مناسب وقت پر مؤثر حکمت عملی کے ساتھ جوابی کارروائی  کی صلاحیت خطرات سے نمٹنے  کا واحد حل ہے ۔

سیمینار کے مہمان خصوصی جناب منیر اکرم (سابق سفیر)  نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہ حربیات کے جدید اطوار نے  عالمی بالا دستی  کی یک رخی صورت حال کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے اور علاقائی اور باہمی طاقت کا توازن ابھرتے ہوئے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے ۔ انہوں نے جزیرہ نما کوریا ، ایران  اور جنوبی ایشیاء میں  پلنے والے تنازعات کے حوالے سے اس خدشے کا اظہار کیا کہ وہ حقیقی جنگ کی شکل اختیار کر سکتے ہیں جس کے باعث ایٹمی جنگ کی حدود بھی پار ہو سکتی ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ جوہری ہتھیاروں کو استعمال نہ کرنے کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں لہذا  اقوام عالم نے  اپنے مقاصد کے حصول کیلئے دیگر تزویراتی جارحیتوں کے ذرائع، جن میں ’’ گرے ہائیبریڈ تنازعات ‘‘ شامل ہیں ،اختیار کرنا شروع کر دئیے ہیں ۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر)  نعیم خالد لودھی  (سابق نگران وزیر دفاع)نے کہا کہ  ابھرتے ہوئے گرے ہائیبریڈ تنازعات‘‘ نے حربیات کے فن میں انسان  کو  اب تک حاصل  تمام  ہتھیاروں اور منصوبہ بندیوں کا احاطہ کر لیا ہے ۔آج کے چومکھی تنازعات  کے اہم ہتھیاروں میں سرجیکل سٹرائیک، ڈرونز، دہشت گرد حملے ، سائبر حملے ، اقتصادی جبر اورسفارتی دباؤ شامل ہیں اور جب تک کہ فوجی اور سیاسی قیادت  مکمل تفہیم کے ساتھ جوابی حکمت عملی ترتیب نہیں دے گی ہم ابھرتی ہوئے خطرات کا مؤثر جواب نہیں دے پائیں گے ۔

رسولووو شکر بایو وچ  نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا دھندلی چو مکھی جنگیں  اور ان سے متعلق  تمام اشکال اور طریقے  ماضی میں استعمال کئے جانے والے حربوں سے بہت مختلف ہیں اور نتیجتاً ان کا مقابلہ کرنے کے طریقے بھی  مختلف ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ان حملوں  اور خطرات کی ابھرتی ہوئی نئی شکلیں اصل خطرہ ہیں ، کیوں کہ متاثرہ ریاستیں ان کا شکار اس طرح ہوتی ہیں کہ انہیں اپنے خلاف چھیڑی گئی اس جنگ کا علم بھی نہیں ہوتا۔

متاثرہ ریاستوں کو اس مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ازبکستان اس بات کا خواہش مند ہے کہ پاکستان اور دیگر ممالک کے ساتھ باہمی تعاون کو فروغ دے کر دور حاضرمیں ’’ گرے ہائیبریڈ حربیات‘‘ کے چیلنجوں کا بھرپور مطالعہ کیا جائے اور مشترکہ  اقدامات اور حکمت عملی ترتیب دی جائے تاکہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ان خطرات کا مؤثر جواب دیا جاسکے۔

ڈاکٹر سیفران چک نے کہا کہ علاقائی تعاون کے ذریعے ہمارے پاس ہائیبریڈ لڑائیوں کے خطرا ت کم کرنےکے بہتر مواقع موجود ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ خطے کے دیگر ممالک جن میں روس ، چین ، ایران ، ازبکستان، قازقستان اور پاکستان شامل ہیں ، کو دفاع اور ترقی کی شدید ضرورت ہے اور ان ممالک کے پاس مشترک مفادات کے حصول کے لئے علاقائی تعاون کی تنظیموں سے بہتر کوئی پلیٹ فارم نہیں ہے ۔ انکے مطابق اس طریقے سے نہ صرف ملکوں  کے مابین مسابقت کے ماحول کو ایک مثبت رخ دیا جا سکتا ہے بلکہ انہیں باہمی ترقی ، خوشحالی  اور علاقائی سلامتی کے احداف پرمتحد کیا جا سکتا ہے ۔

جناب لارس ہلسے نے کہا کہ سائبر حربے  اور مصنوعی ذہانت  مستقبل کے چو مکھی تنازعات میں انتہائی اہم کردار ادا کریں گے ۔ ان کی نظر میں سائبر خطرات خاص طور سے کافی مشکل ثابت ہونگے ، کیوں کہ ان کے ذریعے حکومتی ، فوجی اور دفاعی نظام میں در اندازی  ممکن ہوتی ہے ۔سوشل میڈیا وہ دوسرا میدان ہے جس میں ہمیں نظر رکھنے کی ضرورت ہے ،کیوں کہ اس کے ذریعے لوگوں کے تصورات اور تاثرات پر اثر انداز ہونا بہت آسان ہوتا ہے ۔ انہو ں نے خبردارکیا کہ سائبر خطرات ایک حقیقت ہیں اور یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ملک کو در پیش  خطرات کے تجزیات ،عسکری حربوں اور دفاعی حکمت عملی سے اس اہم جزو کی حیثیت دی جائے۔

سابق سینیٹر جاوید جبار نے اپنے خیالات کا اظہار ان لفظوں میں کیا کہ سائبر کی دنیا میں پھیلنےوالا جھوٹا پروپیگنڈا  دور حاضر کی جنگ کا اہم ترین حصہ ہے اور پاکستان ایسے خفیہ حملوں کا شکار رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کو نوجوان ذہنوں پر حملے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ ان میں منفی جذبات کو فروغ دیا جاسکے۔عالمی طاقتوں کی جانب سے معاشی حربے کا ہتھیار بھی پاکستان کے خلاف استعمال کیاگیا ہے – اوپر سے یہ کہ  ہمارے ملک کے میڈیا کا ایک حصہ ہمارے دشمنوں کے مقاصد کے حصول میں، دانستہ یا نا دانستہ طور پر ، مدد کرتا نظر آتا ہے۔ اس صورتحال میں ہمیں بہت احتیاط کے ساتھ حقیقی خیرخواہی پرمبنی ضمیر کی آواز ، چاہے وہ کتنی ہی تنقیدکی شکل میں ہو ، اور منفی ایجنڈے پر مبنی پروپیگنڈے کےدرمیان فرق روا رکھنا مشکل نظر آتا ہے۔انہوں نے آخر میں اس بات پر زور دیا کہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے ڈھانچے میں اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہے ،کیوں کہ سرِ دست بین الاقوامی سطح پر مسائل حال کرنے کیلئے یہی پلیٹ فارم دستیاب ہے جس سے گرے ہائیبریڈ لڑائیوں کے تباہ کن اثرات کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے ۔

جناب احمر بلال صوفی نے کہا کہ بین الاقوامی قانون  کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنا اب ہائیبریڈ حربیات کااہم جزو بن چکا ہے اور یہ کئی مرتبہ ہو چکا ہےکہ عالمی سطح پر زیادہ اثرو رسوخ رکھنے والی طاقتیں  اپنے مخالف کمزور ممالک  کو زیر کرنے کے لئے اس ہتھیار  کو استعمال کرتی ہیں۔ انہو ں نے کہا کہ آج کے دورمیں جب ایک ملک بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کرتا ہے تو وہ اپنی خود مختاری  کے اس حصے سے دستبردار ہو جاتا ہے جو اس معاہدے سے متعلق ہو۔ انہوں نے بہرحال اس مثبت پہلو کی طرف اشارہ کیا کہ  ہم خیال ممالک کے مابین تعاون کے وسیع امکانات اب بھی موجود ہیں جن کے ذریعے وہ مل کر ایک مشترکہ لائحہ عمل تر تیب دے سکتے ہیں تاکہ اپنےمفادات کا تحفظ کر سکیں ۔ اس ضمن میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) جیسی علاقائی تنظیمیں مستقبل میں کلیدی کردار  ادا کر سکتی ہیں۔

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے