‘ آرٹیکل 370 بھارتی سپریم کورٹ میں : دلائل، نتائج اور آگے کا راستہ’

‘ آرٹیکل 370 بھارتی سپریم کورٹ میں : دلائل، نتائج اور آگے کا راستہ’

کشمیر کی متنازعہ حیثیت پر بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کا اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قانون کی نظر میں کوئی اثر نہیں پڑے گا: آئی پی ایس فورم

سلگتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو ایک بین الاقوامی مسلح تصادم کے طور پر دیکھا جانا چاہیے جو در حقیقت غیر قانونی قبضے، الحاق اور آبادکاری کا معاملہ ہے ، جبکہ اقوام متحدہ، عالمی برادری اور بین الاقوامی قانون کی نظروں میں بھارتی حکومت کے تمام یکطرفہ اقدامات یا ان کو قانونی حیثیت دینے کے لیے عدالتی فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

یہ تبادلہ خیال ‘ آرٹیکل 370 بھارتی سپریم کورٹ میں : دلائل، نتائج اور آگے کا راستہ’ کے عنوان سے5 اکتوبر 2023 کو منعقد ہونے والے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئ پی ایس) کے ورکنگ گروپ آن کشمیر کے 22ویں اجلاس کے دوران عمل میں آیا، جو کہ کشمیر کے امور پر ماہرین اور رائے دہندگان پر مشتمل ایک خصوصی باڈی ہے۔

آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن کی زیر صدارت ہونے والے اس ہائبرڈ اجلاس سے وائس چیئرمین آئی پی ایس سابق سفیر سید ابرار حسین ، کل جماعتی حریت کانفرنس (اے پی ایچ سی) کے چیئرمین مسرت عالم بھٹ کے خصوصی نمائیندے شیخ عبدالمتین، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سینٹر آف انٹرنیشنل اسٹڈیز (سی آئ ایس ایس) مظفرآباد، آزاد جموں و کشمیر ڈاکٹر عاصمہ شاکر خواجہ، انقرہ میں مقیم سینئر کشمیری صحافی افتخار گیلانی، سابق سفیر اشتیاق حسین اندرابی، بین الاقوامی قانون کے ماہر ایڈوکیٹ عمران شفیق، ایگزیکٹو ڈائریکٹر لیگل فورم فار کشمیر (ایل ایف کے) ایڈووکیٹ ناصر قادری، کشمیری ماہر تعلیم اور  ایکٹیوِسٹ ڈاکٹر شیخ ولید رسول، ڈائریکٹر انڈیا اسٹڈی سینٹر، انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد (آئ ایس ایس آئ) ڈاکٹر خرم عباس،اور  کمیونیکیشن اسٹریٹجسٹ انسٹیٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز (آئ آر ایس) ریما شوکت نے دیگر ماہرین کے ہمراہ خطاب کیا ، جبکہ آزاد جموں و کشمیر کی سابق وزیر اور آئ پی ایس ورکنگ گروپ آن کشمیر کی جنرل سکریٹری فرزانہ یعقوب نے اسکی نظامت کی۔

ماہرین کا خیال تھا کہ ہندوستان کی طرف سے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر  کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوششوں سے مسئلہ کی بین الاقوامی پہچان اور اقوام متحدہ کی قراردادوں، بالخصوص قرارداد نمبر 47 کی اہمیت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی جس میں ہندوستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے سوال پر جلد از جلد رائے شماری کرائے۔ یہ بین الاقوامی قراردادیں پاکستان اور کشمیریوں کے کیس کو مضبوط بنانے میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔

بھارتی سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ 5 اگست 2019 کو پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے ذریعے بھارتی آئین کے آرٹیکل 35-اے اور 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا، جس میں جموں و کشمیر کو خصوصی خود مختار حیثیت دی گئ تھی۔

اس پس منظر میں خالد رحمٰن نے  اس معاملے کی ایڈووکیسی میں مستقل مزاجی اور اختراعی رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بدلتے ہوئے سیاسی اور بین الاقوامی ماحول کے مطابق مسئلہِ کشمیر کو مضبوط اور فعال وکالت کے ذریعے گونج دینے کی ضرورت ہے۔

ابرار حسین نے کہا کہ اگرچہ فیصلہ 16 سماعتوں کے بعد محفوظ کر لیا گیا تھا، لیکن خاص طور پر بھارتی چیف جسٹس کے بیانات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ 1947 میں الحاق کے وقت کشمیر کی خودمختاری کو مکمل طور پر ترک کر دیا گیا تھا۔

بھارتی سپریم کورٹ کی تمام 16 سماعتوں کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے ناصر قادری نے اس بات پر زور دیا کہ کارروائی میں کشمیر کی خودمختاری اور الحاق کے اہم پہلوؤں پر کوئی بحث نہیں ہوئ ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنازعہ کے سفارتی حل کی اب بہت کم گنجائش ہے کیونکہ بھارت پہلے ہی ہائبرڈ جنگی حربے استعمال کر چکا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تنازعہ کے تین بڑے فریقوں میں سے ایک ہونے کے ناطے پاکستان کو اس جدوجہد کی اخلاقی، قانونی اور مادی حمایت میں اضافہ کرنا چاہیے۔

عمران شفیق نے کہا کہ اس مسئلے کے اسٹیک ہولڈرز پاکستان، بھارت، کشمیری اور عالمی برادری ہیں۔ یہ عدالتی کارروائی بھارتی آئین کے طے کردہ پیرامیٹرز کے اندر ہوئی ہے، جبکہ پاکستان اور عالمی برادری مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں، جیسے کہ قرارداد نمبر 48، قرارداد نمبر 47، شملہ معاہدہ وغیرہ، مسئلہ کشمیر پر وہ بنیادی دستاویزات ہیں جنہوں نے پاکستان اور کشمیریوں کے لیے کیس کو مضبوط کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی مفروضوں اور اپنی بالادستی کو قانونی حیثیت دینے کی کوششوں کے باوجود یہ عمل صرف علامتی ہے، جس میں اقوام متحدہ کے لیے کوئی حقیقی یا قانونی حیثیت نہیں ہے۔

شرکاء نے مشاہدہ کیا کہ عدالتی کارروائی میں جموں و کشمیر تنازعہ کی اصل نوعیت اور اس کے بین الاقوامی کردار کے بارے میں کوئی تحریر یا بحث جمع نہیں ہوئی۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ بھارت اپنے مفروضوں کے ذریعے یہ پروپیگنڈہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ مسئلہِ کشمیر کا حل ناقابل حصول ہے اور عالمی برادری کشمیریوں اور پاکستان کی بات نہیں سن رہی ہے۔ فیصلے کا جو بھی نتیجہ نکلے، اس کے کشمیری عوام اور خود مسئلہ کشمیر کے لیے بڑے نتائج کی توقع ہے، اس لیے پاکستان کو جنگی بنیادوں پر جوابی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے