‘افغانستان سے امریکہ کا انخلاء : علاقائی امن کو درپیش داخلی اور خارجی خطرات’

‘افغانستان سے امریکہ کا انخلاء : علاقائی امن کو درپیش داخلی اور خارجی خطرات’

امریکی انخلاء سے قبل بین الافغان معاہدہ علاقائی امن کے لیے ناگزیرہے: آئی پی ایس ویبنار

IPS PR 02062021

 امریکی انخلاء سے قبل بین الافغان معاہدہ علاقائی امن کے لیے ناگزیرہے: آئی پی ایس ویبنار

 افغانستان میں موجودطاقت کےتمام دعویداروں کے درمیان  ایک جامع نوعیت کا معاہدہ ہی ملک کے عوام اور خطے کو درپیش مستقبل کے خطرات سے آزاد کرا سکتا ہے۔ بصورت دیگر ، امریکہ کے افغانستان کو پہلے کی طرح کسی بین الافغان معاہدے کے بغیر ہی چھوڑ  کرچلےجانے کی صورت میں  جنگ اور خانہ جنگی سے پہلے سے ہی متاثرہ اس ملک میں خونریزی یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔   

یہ انسٹیٹوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ( آئ ی ایس ) کے زیرِ اہتمام  1 جون ، 2021 کومنعقد کردہ ایک ویبینار میں ہونے والی گفتگو کا لبِّ لباب تھا جس کا عنوان تھا ‘افغانستان سے امریکہ کا انخلاء : علاقائ امن کو درپیش داخلی اور خارجی خطرات’۔

  اس ویبینارکی صدارت کے فرائض آئ پی ایس کے وائس چئیرمین اور افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیرسید ابرار حسین نے سر انجام دئیے جبکہ جیوسٹریٹیجک تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سید نذیر نے اس تقریب سے کلیدی خطاب کیا۔ اس کے علاوہ  آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن، مصنف اور افغانستان  سے متعلقہ امور کے ماہر جمعہ خان صوفی اور سینئر صحافی اور تجزیہ کار حسن خان  نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔

 اپنے خطاب میں بریگیڈئیر(ر)  سید نذیر نے کہا کہ جیسے جیسےامریکی انخلاء کی تاریخ قریب آرہی ہے، افغانستان  کے اندرتشدد میں اضافہ ہوتا  چلاجارہا ہے جو طالبان اور افغان حکومت کے درمیان جاری اقتدار کی شدید جدوجہد کی نشاندہی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں سے نکل جانے کے بعد واشنگٹن جو کچھ افغانستان میں چھوڑ جائے گا، اس کا محض دور سے نظارہ کرتا رہے گا۔

 پاکستان کی جانب سے امریکہ کو متنازعہ فضائی اور زمینی رسد کی فراہمی پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر ایسی کارروائی کی گئی تو  یہ خطے اور پاکستان میں امن و استحکام کے  لیے نقصان دہ ہوگی کیونکہ اس کے براہ راست نتائج  کا سامناان ممالک کو کرناپڑے گا جو اس سلسلے میں امریکہ کو مدد فراہم کریں گے۔ 

انہوں نے متنبہ کیا کہ چونکہ طالبان نے بھی ایسے اقدام کے خلاف علاقائی ممالک کو محتاط رہنے کا کہا ہوا ہے، اس لیے ایسے کسی قدم سے یہ مسلح تنازعہ مزید شدت اختیار کرے گا جس کانتیجہ افغان مہاجرین کی آمدکی صورت میں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کو پاکستان میں اڈوں کی سہولت فراہم کرنا قومی مفاد میں نہیں ہے۔  اس  سےافغانستان کے اندر پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ بیٹھے ہوئے   داعش اور ٹی ٹی پی  جیسے ریاست مخالف عناصر کو موقع ملے گا کہ وہ پاکستان پر امریکہ کی پراکسی جنگ لڑنے کا لیبل لگا سکیں۔

 اسپیکر نے علاقائی ممالک خصوصاًپاکستان اور اندرونی طاقت کے دعویداروں پر زور دیا کہ وہ خانہ جنگی کے کسی بھی امکان کو کم کریں۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ پاکستان کے اندر بگاڑ پیدا کرنے والے عناصر بالخصوص بھارت کی موجودگی میں دیرپا علاقائی امن کے لیے اپنی کوششوں اور احتیاطی تدابیر کو تیز کرنے کی ضرورت ہے جو اس جاری لڑائی  پر مزیدتیل چھڑکنے کی کوشش کریں گے۔

 صوفی کا خیال تھا کہ برطانوی حکومت پاکستان اور افغانستان کو قریب لانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ ایسےباہمی امور کو حل کیا جاسکے جو ایک طویل عرصے سے ان پڑوسیوں کے درمیان  موجود ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ برطانیہ نے پاک آرمی چیف اور افغان صدر اشرف غنی کے مابین حالیہ ملاقات میں سہولت کار کے فرائض ادا  کیے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان کی طرف سے علاقے کے طاقتور عناصر پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ طویل المدت تصفیہ کےلیے افغانستان موجودہ پاک افغان سرحد کو تسلیم کرے۔

 اپنے حالیہ دورۂ افغانستان کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے حسن خان نے کہا کہ عام طور پر افغان عوام پاکستان کو پسند کرتے ہیں اور اس طرح نفرت نہیں کرتے جیسا اکثر میڈیا  بالخصوص سوشل میڈیا پر دکھایا جاتا ہے۔ تاہم، افغان یا تو طالبان یا پھر کابل حکومت سے خوش نہیں ہیں اوروہ یہ خیال کرتے ہیں کہ افغانستان کو امریکہ نے اپنےپیدا کیے ہوئے گند میں  چھوڑ کر ایک بار پھر ان کے ساتھ غداری کی ہے۔

سرحد کے اس پار موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے خالد رحمٰن نےامریکی انخلاء کے دوران افغانستان میں بڑھتے ہوئے تشدد کے خلاف متنبہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ افغانستان کے حالات امن کی نشاندہی نہیں کر رہے بلکہ خانہ جنگی کا  ایک  نیا   ماحول بنانے کی طرف جا  رہے ہیں۔ انہوں نے تمام متعلقہ فریقین بالخصوص اندرونی طاقتور عناصر پر زور دیا کہ وہ امریکی فوجوں کے افغان سرزمین سے نکلنے سے پہلے ایک معاہدے پر دستخط کریں۔

 اجلاس کے اختتام پر ابرار حسین نے افغان حکومت کی جانب سے پاکستان کے خلاف کی جانے والی  الزام تراشی پر افسوس کا اظہار کیا۔ ان کا خیال تھا کہ علاقائی ممالک نہیں چاہتے کہ طالبان تنہا افغانستان پر حکمرانی کریں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اس سے خطے میں عسکریت پسندی اور تشدد پھیلے گا۔ لہٰذا، انہوں نے کہا کہ پائیدار امن کےلیے امریکہ کے فوجی انخلاء سے قبل انٹرا افغان مذاکرات اور معاہدہ ناگزیر ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے