‘وفاقی بجٹ 22-2021: ایک جائزہ’

‘وفاقی بجٹ 22-2021: ایک جائزہ’

بجٹ میں موجود بالواسطہ ٹیکس امیر اور غریب کا تضاد بڑھانے کا سبب بنیں گے۔ معاشی ماہرین

the-Federal-Budget-2021-22-A-Review

 بجٹ میں موجود بالواسطہ ٹیکس امیر اور غریب کا تضاد بڑھانے کا سبب بنیں گے۔ معاشی ماہرین

معاشی ماہرین کے مطابق وفاقی بجٹ 22-2021 میں بالواسطہ ٹیکس بشمول ودہولڈنگ ٹیکس  پر ضرورت سے زیادہ انحصار امیر اور غریب کا تضاد بڑھانے کا سبب بنے گا جبکہ کسی ٹھوس ساختی اصلاحات کی عدم موجودگی میں جامع اور پائیدار ترقی محض ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔ 

ان خیالات کا اظہار معاشی ماہرین نے ‘وفاقی بجٹ 22-2021: ایک جائزہ’ کے عنوان سے 19 جون 2021 کو ہونے والے ایک ویبینار میں کیا جس کا انعقاد انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز [آئی پی ایس]، اسلام آباد نے کیا تھا۔ 

اس ویبینار سے خطاب کرنے والوں میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے سینئیر ریسرچ اکنامسٹ ڈاکٹر محمودخالد، انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینیجمنٹ کے کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈویلپمنٹ کی ڈیِن ڈاکٹر شاہدہ وزارت، پلانننگ کمیشن کے سابقہ چیف اکنامسٹ ڈاکٹر پرویز طاہر اور پیر مہر علی شاہ زرعی بارانی یونیورسٹی میں فیکلٹی آف سوشل سائینسز کے ڈیِن ڈاکٹر عبدالصبور شامل تھے۔ اجلاس کی صدارت آئی پی ایس کے وائس چئیرمین ایمبیسیڈر [ر] سید ابرار حسین اور میزبانی آئی پی ایس کے تحقیق کار محمد ولی فاروقی نے کی،  جبکہ سابق وفاقی سیکرٹری برائے بجلی و پانی مرزا حامد حسن اور ہاوسنگ اور ہاوسنگ فنانس کے ماہر کنسلٹنٹ ضیغم ایم رضوی بھی گفتگو کا حصّہ رہے۔ 

مقررین کا کہنا تھا کہ موجودہ معاشی حالات میں بجٹ میں دیئے گئے ترقی و نمو کا طے کردہ 4٫8 کا ہدف دیرپا ثابت نہیں ہو گا۔ گروتھ کا یہ ہدف اگرچہ کم وقتی یا شارٹ ٹرم ہو سکتا ہے لیکن پائیدار ترقی کے اہداف، قابل تجدید توانائی ، آب و ہوا کی تبدیلی اور پبلک سیکٹر کی  صلاحیت اور استعدادِ کار میں اضافہ پر توجہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ حکومت کے لیے بہت مشکل ثابت ہو گا۔ اسکے علاوہ آبادی کے بڑے حصّے یعنی غریبب اور درمیانے طبقے کے مقابلے میں امیر طبقے کو فائدہ پہچانے کی ایک طریقہ کار کو اسٹاک مارکٹ کی حوصلہ افزائی کا نام بھی دیا گیا ہے ۔ 

ماہرین نے خبردار کیا کہ عام آدمی کو نظر انداز کر کے انڈسٹری کے بڑے لوگوں کو فائدہ پہچانے کے اس طرح کے اقدامات سے خوراک کی افراط زر میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ 

ماہرین کا خیال تھا کہ اگر حکومت لوگوں کو سستی رہائش فراہم کرنے کے اپنے وعدے پر پورا اترتی ہے تو اس سے  تعمیراتی صنعت اور اس سے وابستہ بہت سی دیگر صنعتوں کو بھی تقویت ملے گی۔ البتہ حکومت کے  قانون سازوں کو فنڈ دینے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ اس سے کرپشن کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ 

حکومت کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام [پی ایس ڈی پی] کی مد میں ہیومن ڈویلپمنٹ جیسے ضروری اقدامات کو چھوڑ کر صرف سڑکوں کی تعمیر وغیرہ جیسے مٹی اور گارے کے منصوبوں پر توجہ دینے کو غلط ترجیحات قرار دیا گیا۔

ماہرین نے یہ بھی کہا کہ اس بجٹ میں عام آدمی کے لیے زیادہ کچھ موجود نہیں ہے کیونکہ اس میں زیادہ توجہ قرضوں کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات پر مرکوز ہے جس سے ڈویلپمنٹ فنڈ کی مد میں صرف 11 فیصد مختص کیا گیا ہے۔ 

مقررین کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومتی قرضوں کی وجہ سے فنانشل سیکٹر میں بہت کراوڈنگ ہو گئ ہے جس کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر کو سرمایہ کاری کے لیے کریڈٹ کی کمی کا سامنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کے درمیان موجود عدم اعتمادی پر بھی فوری طور پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے