‘غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجنے کی پاکستان کی مہم پر غور و فکر’

‘غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجنے کی پاکستان کی مہم پر غور و فکر’

غیر قانونی افغانیوں کی وطن واپسی پر تحفظات کے لیے پاک افغان شمولیتی کمیشن کے قیام پر زور

غیر قانونی اور غیر دستاویزی تارکین وطن کی اپنے وطن واپسی کے لیے پاکستان کے اقدام نے  بالخصوص افغانیوں میں کثیر جہتی خدشات کو جنم دیا ہے، جن کو ایک جامع نقطہ نظر کے ذریعے دور کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے ایک کمیشن کے قیام کی ضرورت ہے جس میں دونوں حکومتوں، ان کی سول سوسائٹی اور علمی اور مذہبی کمیونٹیز کے نمائندے شامل ہوں۔

ایسا نمائندہ ادارہ تعمیری تعاون کو فروغ دے سکتا ہے تاکہ افغانستان میں کھینچا تانی کے عوامل کا فائدہ اٹھایا جا سکے اور ایک جامع نقطہ نظر کے طور پر دوسرے ممالک میں افغان مہاجرین کے لیے مراعات پیدا کی جا سکیں۔

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئ پی ایس) اسلام آباد میں 22 نومبر 2023 کو منعقدہ ’غیر قانونی تارکین وطن کو  واپس بھیجنے کی پاکستان کی مہم پر غور و فکر‘ کے عنوان سے ہونے والی ایک نشست کے دوران ان خیالات کا تبادلہ کیا گیا۔

آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس سے وائس چیئرمین آئی پی ایس سفیر (ر) سید ابرار حسین، آئ پی ایس کے مشیر برائے تحقیق اور اکیڈمک آؤٹ ریچ  پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام، افغانستان کے سابق نائب وزیرِ تعلیم ڈاکٹر عطاء اللہ واحدیار ، سلام یونیورسٹی کابل کے ریسرچ سینٹر کے سربراہ نصیر احمد نویدی، ہیومینٹیرین اسسٹنس سوسائٹی، افغانستان کے چیئرمین ہارون خطیبی، پاک افغان یوتھ فورم کے ڈائریکٹر سلمان جاوید، پاک-افغان امور کے ماہر جمعہ خان صوفی،  یونیورسٹی آف ٹرومسو، ناروے کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر فرحت  تاج ، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل) سے ڈاکٹر ساجد اقبال، اور سینئر صحافی اور پاک افغان امور کے ماہر ین محمود جان بابر اور طاہر خان نے خطاب کیا۔

اس بحث میں غیر قانونی اور غیر دستاویزی تارکین وطن کو وطن واپس بھیجنے کے پاکستان کے حالیہ فیصلے کے حوالے سے مختلف نقطہ نظر پیش کیے گئے۔

سفیر ابرار حسین نے پاکستان کے کثیر جہتی چیلنجز پر روشنی ڈالی اور تشدد میں حالیہ اضافے سے منسلک سیکورٹی خدشات کی وجہ سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان پاکستان افغانستان تعلقات کی پیچیدگی کو اجاگر کیا۔

افغانستان کا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے مقررین نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان کو قانونی حق حاصل ہے کہ وہ جسے چاہے ملک بدر کر دے اور اس حق سے کوئی اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ غیر قانونی تارکین وطن کو نکالنے کا فیصلہ، جن میں 1.7 ملین افغان شامل ہیں، لگتا ہے کہ جلد بازی میں اور مناسب منصوبہ بندی کے بغیر کیا گیا ہے۔

انہوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ افغانستان کی حکومت واپس آنے والے تمام افغانوں کو سہولت فراہم کرنے کے قابل نہیں ہوسکتی ہے اور اس سے انسانی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ لہٰذا یہ آوازیں سنائی دے رہی ہیں کہ خاص طور پر سردیوں کی وجہ سے فیصلہ کو ری شیڈول کیا جائے۔ انہوں نے انسانی بحران کے امکانات کو کم کرنے کے لیے آگے بڑھنے کے راستے کے طور پر شہری اور سیاسی ملکیت کو اپنانے پر زور دیا۔

پاکستان کا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں عدم استحکام کی وجہ سے مسلم بھائی چارے کے جذبے سے افغان مہاجرین کی میزبانی کی ہے۔ اب جبکہ ملک میں امن ہے، یہ مناسب ہے کہ غیر دستاویزی تارکین ِوطن اپنے وطن واپس جائیں۔ واضح رہے کہ پاکستان اب بھی 27 لاکھ کے قریب افغانوں کی میزبانی کر رہا ہے اور دیگر ممالک میں افغان مہاجرین کی آباد کاری میں بھی مصروف ہے۔

مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ فیصلے کو تبدیل کرنے سے کسی بھی ریاست کو فائدہ نہیں ہوگا، اور اس عمل کو مکمل کیا جانا چاہئے۔ مزید برآں، پاکستان کے اچانک اعلان میں جلد بازی کے تاثر اور ایک ماہ کی مختصر ڈیڈ لائن نے غلط فہمیوں کو جنم دیا ہے جس کے لیے دونوں ممالک میں جوابی بیانیہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ مناسب ہے کہ پاکستان اپنی پالیسی کو واضح طور پر بیان کرے۔

مقررین نے تجویز دی کہ متعلقہ بین  الریاستی مسائل کا سفارتی حل تلاش کیا جائے۔ اس مسئلے کو حل کرنے اور متعلقہ سیکورٹی خدشات کا جائزہ لینے کے لیے دونوں حکومتوں، ان کی سول سوسائٹی، اور علمی اور مذہبی کمیونٹیز کے نمائندوں پر مشتمل ایک پینل یا کمیشن تشکیل دیا جانا چاہیے۔

اپنے اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے کہا کہ حالیہ فیصلہ اگرچہ مثالی نہیں ہے، لیکن قبولیت کا تقاضا کرتا ہے۔ سیکورٹی تحفظات کی بنیادی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مکمل طور پر سیکورٹی لینس پر انحصار کرنا چیلنجز کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ 2021 کے بعد افغانستان میں جغرافیائی سیاسی ماحول بدل گیا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کرنے والے بیرونی اور اندرونی عناصر نے بھی صورتحال کو خراب کیا ہے۔ لہٰذا، بین الحکومتی تنازعات کے حل کے لیے سفارتی اقدامات کو میڈیا پر مبنی قراردادوں سے تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے۔ مزید برآں، فیصلے سے پہلے اور بعد کا ایک اچھی طرح سے تیار کردہ بیانیہ، منظر نامے میں موجود منفی تاثرات کو مؤثر طریقے سے دور کر سکتا ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ ایک جامع نقطہ نظر ناگزیر ہے جس میں ایک  ایسانمائندہ ادارہ قائم کیا جائے جس میں دونوں طرف کے فریقین شامل ہوں جو مل کر ان کھینچا تانی کے عوامل کو حل کریں، مراعات پیدا کریں اور شہریت سمیت دیگر معاملات کے لیے مکنہ راستے تلاش کریں۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے