گھریلو تشدد کے بل کا جائزہ

گھریلو تشدد کے بل کا جائزہ

گھریلو تشدد ایک عالمی رجحان  ہے لیکن پاکستان کے اندر اس طرح کے واقعات میں حالیہ اضافہ کافی حد تک تشویش کا باعث ہے۔ چاروں صوبوں میں گھریلو تشدد کے خلاف پہلے سے موجود قوانین کی موجودگی میں جس طرح  جرائم کا رجحان بڑھ رہا ہے وہ  آہستہ آہستہ کافی خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔

 Domestic-Violence-Bill-Reviwed

گھریلو تشدد ایک عالمی رجحان  ہے لیکن پاکستان کے اندر اس طرح کے واقعات میں حالیہ اضافہ کافی حد تک تشویش کا باعث ہے۔ چاروں صوبوں میں گھریلو تشدد کے خلاف پہلے سے موجود قوانین کی موجودگی میں جس طرح  جرائم کا رجحان بڑھ رہا ہے وہ  آہستہ آہستہ کافی خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔

یہ وہ سیاق و سباق تھا جس میں 14 جولائی 2021 کو آئی پی ایس میں ایک گول میز مباحثہ منعقد ہوا جس میں گھریلو تشدد بل کے مسودے کے ساتھ ساتھ مختلف حلقوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے نکات پر غور کیا گیا۔ آئی پی ایس کے سینئر محقق سید ندیم فرحت کی سربراہی میں اور چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن کی زیر صدارت، اس مباحثے میں پاکستان کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے وکلاء ، سول سوسائٹی کے ارکان ، ماہرین تعلیم اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے شرکت کی۔

ایک ایسے قانون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے جو جرائم میں رکاوٹ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ مجرموں کو سزا بھی دے سکے،  یہ بات زیر بحث آئی کہ اس طرح کی صورتحال میں مداخلت پیدا کرنے والے موجودہ طریقہ کارکو اس طرح تبدیل کیا جا  ئے کہ جو نوعیت کے لحاظ سے زیادہ مقامی ہو۔پینلسٹس نے اس بات پر زور دیا کہ  اس طرح کے قانون کا  مرکزی نکتہ  خاندان پر مرکوز ہونا چاہیے  جس میں ساتھ ساتھ افراد کے حقوق کا تحفظ بھی شامل ہو۔

ندیم فرحت نے نشاندہی کی کہ فیملی کورٹ ایکٹ کے ساتھ ساتھ پنجاب کا قانون پہلے ہی ایسا میکانزم پیش کر رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ  پہلے سے موجود خاندانی قوانین میں گھریلو تشدد کے واقعات کے لیے سزا دینے کا طریقۂ کار موجود ہے ، لیکن ابھی بھی ان قوانین کو بہتر بنانے کی گنجائش باقی ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سےکافی حد تک  بچا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ  پنجاب کا قانون ان پہلوؤں پر زیادہ   توجہ دینے کی  کوشش کرتا ہے جو مبہم ہیں اور بل میں غلط تشریح کا شکار ہیں۔

اسپیکر نے اس بات پر مزید زور دیا کہ مقننہ کو نہ صرف اس بل پر زیادہ گہرائی سے غور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ صوبائی قوانین اور ان پر عملدرآمد کے طریقہ کار پر بھی نظر ثانی ہونی چاہیے۔

ندیم فرحت نےکہا کہ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی نظریاتی کونسل (CII)  کوبھی بل کا جائزہ لینے اور آئینی فریم ورک کے مطابق ایسی ترامیم تجویز کرنے  میں اپنا اہم کردار ادا کرنا  چاہیے جو آئینی فریم ورک کے زیادہ قریب ہوں اور  خاندان ، خواتین ، بچوں کی حفاظت اور معاشرے میں احترام کا کلچر پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کریں۔

آخر میں خالد رحمٰن نے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس مسئلے کو نہ تو پینل اقدامات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی مقامی ضروریات کی مکمل تردید کرتے ہوئے  کوئی ٹرانسپلانٹڈ حل اس گرتی ہوئی صورتحال کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو گا۔“

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے