۳۷۰ اور ۳۵ اے کی منسوخی اور کشمیر کے محاصرے کے ایک ماہ بعد مستقبل کی صورت حال پر ماہرین کا تبادلہ خیال

۳۷۰ اور ۳۵ اے کی منسوخی اور کشمیر کے محاصرے کے ایک ماہ بعد مستقبل کی صورت حال پر ماہرین کا تبادلہ خیال

Kashmir-under-siege thumbمقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے تناظر میں حالیہ علاقائی اور بین الاقومی حالات پر منعقد ہونے والے ایک مشاورتی اجلاس می ماہرین نے آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵ اے   کی منسوخی کے بعد کے تزویراتی منظر نامے پر طویل بحث کی اور مناسب لائحہ عمل کے لئے پالیسی  سازحلقوں کو اس پر  غور کرنے کی تاکید کی ۔

 Kashmir-under-siege 1

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے تناظر میں حالیہ علاقائی اور بین الاقومی حالات پر منعقد ہونے والے ایک مشاورتی اجلاس می ماہرین نے آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵ اے   کی منسوخی کے بعد کے تزویراتی منظر نامے پر طویل بحث کی اور مناسب لائحہ عمل کے لئے پالیسی  سازحلقوں کو اس پر  غور کرنے کی تاکید کی ۔

 اس اجلاس کا  انعقاد ۵ ستمبر ۲۰۱۹ کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز میں ہوا اور اس کی صدارت آزاد جموں کشمیر کے سابق صدر میجر جنرل (ریٹائرڈ) سردار محمد انور خان نے کی ۔ اس مشاورتی اجلاس میں حصہ لینے والے تجزیہ کاروں  کا تعلق سیاست ، دفاع، میڈیا، تھنک ٹینکس اور علم و تحقیق کے میدان سے تھا ۔ ان میں آئی پی ایس کے ایگزیکٹو صدر خالد رحمٰن، بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) سید نذیر، لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ ) فیض جیلانی، ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) اشتیاق حسن اندرابی، ایمبیسیڈر(ریٹائرڈ) ابرار حسین  ، آزاد جموں و کشمیر کی سابق وزیرفرزانہ یعقوب ، کشمیر میڈیا سروس کے سر براہ تجمل الاسلام، میڈیکل پریکٹیشینر اور آزاد جموں کشمیر میںکام کرنے والے امدادی کارکن خورشید منشی، حریت رہنما غلام محمد صفی، آئی پی ایس کے ریسرچ فیلو شہزاد اقبال شام ، وفاقی تجزیہ کار سید محمد علی  اور سوشل میڈیا پر سر گرم  بلاگر ڈاکٹر عائشہ اعجاز شامل تھے ۔

 کشمیر پر ہندوستانی اقدامات کے  نتائج  و عواقب پر گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں نے  توجہ مبذول  کروائی کہ حکمران  پارٹی بی جےپی نے اپنے انتخابی منشور میں بھارتی آئین سے آرٹیکل ۳۷۰اور ۳۵ اےکی منسوخی کا واضح طور پر اظہار کر رکھا تھا ۔ چنانچہ  اسے کسی حیرت انگیز قدم کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے ۔ آر ایس ایس کی حمایت یافتہ  بی جے پی حکومت ہندوستان کی مسلم آبادی کے خلاف آئینی اور قانونی دہشت گردی  کرنے کے لیے تیار ہے اور اس کا اگلا ہدفت آسام کے مسلمان ہیں ۔ مزید یہ کہ  بین الاقوامی حلقوں کے موجودہ رد عمل کو مد نظر رکھا جائے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان نے عالمی طاقتوں کو اعتماد میں لینے کے بعد ۳۷۰ اور ۳۵ اےکی منسوخی کا فیصلہ لیا ۔ بھارت کو توقع تھی کہ اس اقدام کے بعد کشمیر ی ہکا بکا ہو کر دیکھتے رہ جائیں گے ۔ تاہم کشمیر ی آبادی ، بین الاقوامی میڈیا اور سول سوسائٹی کا  غیر معمولی رد عمل بھارت کے لئے انتہائی غیر متوقع ثابت ہو رہا ہے ۔

مقررین کا خیال تھا کہ بھارت  کی طرف سے کشمیر کے حوالہ سے اٹھائے گئے آئینی اقدامات کو واپس لیے جانے کا امکان نہیں ہے ۔ تاہم بین الاقوامی محاذ پر مزید شرمندگی سے بچنے کے لیے بھارت یہ تجویز دے سکتا ہے کہ وہ کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرنے پر غور کر ے گا،  اگر پاکستان ایل اوسی پر مداخلت کرنا چھوڑ دے۔  بہرحال اس طرح کی تجویز کا استعمال  اپنے اوپر سے توجہ ہٹا کر الزام پاکستان کے سر مونڈھنے کا منصوبہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے ۔

مقررین نے ان خیالات کا بھی اظہار کیا کہ آرٹیکل ۳۵ اےکے آرٹیکل ۳۷۰ کی نسبت بہت زیادہ مضمرات ہیں کیونکہ ہندوستانی آئین کو مقبوضہ کشمیر کے حقیقی آئین کے طور پر لاگو کرنے کی تدبیریں    پہلے ہی کی جارہی تھیں۔ تاہم ۳۵ اےکو منسوخ کر کے بھارت مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تبدیلیاں لانا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لئے ہندوستان مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر وضع کی گئی اسرائیلی حکمت عملی پر کام کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے ۔ بھارت کا  یہ منصوبہ ہو سکتا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر غیر مقامی لوگوں کی آباد کاری اور کشمیریوں کی نسل کشی کے ذریعے اس آبادیاتی تبدیلی کا مقصد حاصل کرے۔ بھارت پاکستانی افواج کے خلاف محدود فوجی کارروائی شروع کر کے وادی کی آبادی کوپاکستان کی طرف بھی دھکیل سکتا ہے ۔ مزید براں بھارت اقتصادی ترقی کے بہانے کشمیر میں بڑے بڑے سرکاری اور نجی سرمایہ کاروں کو بھی لانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ ان سرمایہ کاروں کے ذریعے غیر ملکی طاقتیں لداخ کے تزویراتی علاقے میں اپنے قدم جما سکتی ہیں۔ 

مقررین نے اس  تاثر پر بھی گفتگو کی کہ لداخ بدھ اکثریت  کا علاقہ ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ خود ہندوستان  نے 2012 ء کی مردم شماری میں بتایا ہے کہ اس خطے میں بدھ آبادی 40 فی صد ہے جبکہ  مسلمان آبادی 46 فی صد ہے ۔ مقررین نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ چونکہ کشمیر کو ہندوستانی آئین میں ایک خاص حیثیت حاصل تھی ،  لہٰذا بھارت کشمیر پر چین کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعات کو حل کرنے کی  پوزیشن میں نہیں تھا ۔ تاہم اب بھارت نے آئینی رکاوٹوں کو دور کر دیا ہے  اس لیے وہ چین کے ساتھ کسی نوعیت کے انتظامات کا آغاز کر سکتا ہے ۔چنانچہ  اگر چین بھارت کے ساتھ اپنے تنازعات کو دو طرفہ مذاکرات سے حل کرتا ہے تو اس کے مضمرات پرغور کرنا ضروری ہے ۔ وادی  لداغ اور جموں سمیت مقبوضہ کشمیر میں بھارتی کارروائیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر رد عمل آیا ہے ۔ امکان ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیرمیں کرفیو، مواصلات کے  بلیک آؤٹ اور تشدد کو جاری رکھے گا تاکہ مزاحمت کی روح کو دبایا جا سکے ۔  اب تک کی خبروں کے مطابق 12ہزار سے زیادہ سرگرم نوجوانوں اور رہنماؤں کو بھارتی فورسز نے اٹھا لیا ہوا ہے اور انہیں نا معلوم مقام پر رکھا گیا ہے۔ تاہم اس بات کا قوی امکان ہے کہ مستقبل قریب میں مقبوضہ کشمیر کے اندر بغاوت کی ایک نئی لہر اٹھے گی ۔ لہذا اس مسئلے سے عالمی توجہ ہٹانے کے لئے اس بات کا امکان ہے کہ بھارت  کوئی مصنوعی ڈرامہ بازی کرے گا ۔ اس طرح کے ڈرامے   کے لیے بھارت پاکستان میں کسی فوجی کارروائی کے آغاز کا بہانہ تلاش کرے گا ۔

مقررین نے اس جانب بھی توجہ مبذول کروائی کہ بی جے پی کے انتخابی منشور کا اگلا ایجنڈا آزاد جموں و کشمیر کے علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنا ہے ۔ بھارت اس وقت نصف سے زیادہ افواج کشمیر میں تعینات کیے ہوئے ہے۔ ہندوستانی فوجیوں کی تعداد میں مزید اضافے کا امکان ہے کیونکہ ہندوستان کو اس وقت کسی بھی دوسرے محاذ پر چیلنج کا سامنا نہ ہونے کے برابر ہے ۔ مقررین نے پاکستان  کے دفاعی منصوبہ سازوں پر پر زور دیا کہ وہ کشمیر پر اپنے رد عمل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے مستقبل کے اس ممکنہ منظر نامے پر ضرور غور کریں۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے