18ویں آئینی ترمیم اور توانائی کے شعبے میں اس کے مضمرات

18ویں آئینی ترمیم اور توانائی کے شعبے میں اس کے مضمرات

18ویں آئینی ترمیم نے وفاق اور صوبوں کے درمیان توانائی کے شعبہ میں جاری کشمکش کو کم کرنے کے بجائے مزید بڑھا دیا ہے چنانچہ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس بحران کے حل کے لیے اس ترمیم کا ازسر نو جائزہ لیا جائے۔
یہ اس سیمینار کا حاصل ہے جو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ سیمینار کا عنوان تھا ’’18ویں آئینی ترمیم : توانائی کے شعبے میں اس کے مضمرات‘‘۔ سیمینار کے مقررین میں وزارت پانی و بجلی کے سابق سیکرٹری اور آئی پی ایس میں ’’توانائی پروگرام ‘‘کے چیئرمین مرزا حامد حسن، پاکستان میں توانائی کے شعبہ کے لیے وکلاء کی تنظیم کے صدر محمد عارف ایڈووکیٹ، آئی پی ایس کی نیشنل اکیڈمک کونسل کی ممبر اور سابق سینیٹر سعدیہ عباسی، آئی پی ایس کی سینئرایسوسی ایٹ اور اس کے توانائی پروگرام کی کوآرڈی نیٹر امینہ سہیل ایڈووکیٹ اور آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن شامل تھے۔
سیمینار میں اس پہلو کی نشاندہی کی گئی کہ آئینی ترمیم میں ایسے بہت سے ابہام موجود ہیں جنہوں نے صوبوں اور وفاق کے درمیان غلط فہمیوں کو جنم دیا ہے اور ان کے غیر ضروری مطالبات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

alt

محمد عارف نے پیٹرولیم کے شعبے میں اس آئینی ترمیم کے اثرات پر توجہ مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 172میں ذیلی شق کا اضافہ کرنے کے باعث کسی بھی صوبے میں پائے جانے والے معدنیاتی اور قدرتی وسائل پراس صوبے اوروفاق میں ’’مشترکہ اور برابر ‘‘کی تقسیم کا کلیہ لاگو کردیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے باعث یہ بات مشاہدے میں آرہی ہے کہ صوبوں میں نئے مطالبات جنم لینے لگے ہیں۔مثلاً صوبائی ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کا مطالبہ، تیل اور گیس کی ترقیاتی کارپوریشن اور پاکستان پیٹرولیم لمٹیڈکی تقسیم اور بین الاقوامی سطح پرتوانائی اور پیٹرولیم کمپنیوں کے ساتھ براہِ راست معاملات طے کرنے کا مطالبہ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مطالبات غلط فہمی کی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں کیونکہ وفاقی حکومت اس استعداد کار کا مظاہرہ نہیں کرپائی کہ وہ 18ویںآئینی ترمیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھ اور سمجھا پاتی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ تیل اور گیس کی تلاش کے نئے منصوبے جون 2010ء سے رکے پڑے ہیں اور یہ سب اس وجہ سے ہے کہ اس آئینی ترمیم نے نئی صورت حال جنم دے دی ہے۔

انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 18ویںآئینی ترمیم نے توانائی کے شعبے پر تصور سے بھی زیادہ منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
بیرسٹرسعدیہ عباسی نے اس صورت حال میں مثبت تبدیلی کے لیے مربوط منصوبہ بندی اور باہمی تعاون کو ناگزیر قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک تمام متعلقہ طبقات کے ساتھ بیٹھ کر مستقل مزاجی سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جائے گی اس وقت تک کسی خوشخبری کی توقع نہیں کی جانی چاہیے۔یہ منصوبہ بندی ایسی ہو کہ حکومتیں تبدیل بھی ہوتی رہیں تو اس پر عملدرآمد جاری رہے۔

alt
alt

alt

ان کی رائے میں اس حقیقت کے باوجود کہ صوبوں کو اپنے لیے بجلی پیدا کرنے کا اختیار دیا گیا ہے وہ یہ سب کچھ اس لیے نہیں کر پاتے کہ ان کی راہ میں ماہرین اور وسائل کی کمی، بین الاقوامی امداد کے حصول کے لیے درکار ضمانت کی عدم دستیابی اور سب سے بڑھ کر ملکی سطح پر باہمی منصوبہ بندی کا ممکن نہ ہو سکناوہ عوامل ہیں جو مشکلات کی صورت میں حائل ہیں۔
امینہ سہیل نے توانائی کے شعبے سے متعلق 18ویںآئینی ترمیم سے پہلے اور بعد کے منظر نامے پر توجہ دلاتے ہوئے اس غلط فہمی کی نشاندہی کی کہ صوبوں کو بجلی پیدا کرنے کی آزادی اس ترمیم کے بعد ملی ہے اور اس سے قبل انہیں ایسا کرنے سے روکا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔توانائی گھروں اور گرڈاسٹیشنوں کی تعمیر ، بجلی کی ترسیل کے لیے تار بچھانے کے منصوبے، لیوی ٹیکس، بجلی کی تقسیم کے نظام کا اختیار 18ویںآئینی ترمیم سے پہلے بھی صوبوں کے ہی پاس تھا اور اب بھی انہی کے پاس ہے۔

alt
alt
alt
alt

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ 18ویںآئینی ترمیم کے باعث صرف اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کی اجازت کے بغیر کسی بھی جگہ پن بجلی کے منصوبے تعمیر کرنے کا فیصلہ نہیں کر سکے گی۔
اصل تنازعہ اسی وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ دستور میں کنکرنٹ لسٹ کے موقوف ہوجانے کے بعد بجلی کا شعبہ وفاقی حکومت کے پاس چلا گیا ہے جس کے نتیجے میں صوبوں کوبجلی پیدا کرنے اور اسے تقسیم کرنے کا اختیار ہونے کا باوجود اپنے منصوبوں کو تکمیل تک پہنچانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مرزا حامد حسن نے سیمینار کا اختتام کرتے ہوئے اس امر کی ضرورت پر زور دیا کہ 18ویںآئینی ترمیم کا ازسر نو جائزہ لیا جانا چاہیے اور ایسا کرتے ہوئے تمام متعلقہ فریقوں اور ماہرین کو اکٹھے مل بیٹھنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی اختیار اور قانون سازی کے درمیان موجود فروعی تقسیم اور اس پر عملدرآمد کا اختیار 18ویںآئینی ترمیم کے بعد مزید بڑھ گیا ہے جس کے باعث بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں جن کا نتیجہ عوام اور ترقیاتی منصوبوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے