کم نگاہی اورناقص منصوبہ بندی کوئلہ کے ذخائر سے استفادہ میں رکاوٹ

کم نگاہی اورناقص منصوبہ بندی کوئلہ کے ذخائر سے استفادہ میں رکاوٹ

پاکستان میں قومی سطح پر توانائی کے موجودہ بحران کے پیش نظر انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے ایک ’’توانائی پروگرام‘‘ کا آغاز کیا ہے۔ یہ پروگرام توانائی بحران سے متعلق مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے، تحقیق اورتجزیے کو آگے بڑھاتا ہے۔ اس پروگرام کا مقصد مسائل کی نشاندہی اوران کے ممکنہ حل تجویز کرنا اور اس ضمن میں اپنی سفارشات متعلقہ اداروں اورعوامی حلقوں تک پہنچانا ہے۔ اسی پروگرام کے تحت سیمینار’’ توانائی کابحران اورپاکستان میں کوئلے کے ذخائر : وسائل،مسائل اورامکانات‘‘ کے عنوان سے ۱۴جون ۲۰۱۲ء کو منعقد کیا گیا۔
سیمینار میں ماہرین نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں ہماری ناکامی کی بڑی وجوہات میں کرپشن، ذاتی مفادات کا تحفظ،اقربا پروری اورخراب طرزِ حکمرانی شامل ہیں۔توانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے ان برائیوں کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ کوئلہ کی پیداوار بڑھانے کے لیے بڑے پیمانے پر مشینی کان کنی کا اہتمام کرناہوگا۔ کوئلہ کئی شکلوں میں توانائی فراہم کرنے کا ایک اہم متبادل ذریعہ ہے۔ اس کے فروغ سے قومی سطح پر توانائی کے بحران میں کافی کمی آسکتی ہے۔
سیمینار کا موضوع تھا،’’توانائی کا بحران اورپاکستان میں کوئلے کے ذخائر:وسائل، مسائل اورامکانات‘‘ اوراس میں اظہارِ خیال کرنے والوں میں سابق وفاقی وزیر برائے پٹرولیم اورقدرتی وسائل عثمان امین الدین، سابق سیکرٹری پانی و بجلی اورآئی پی ایس کے ’’توانائی پروگرام‘‘ کے چیئر مین مرزا حامد حسن، آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن، توانائی پروگرام کی سٹیرنگ کمیٹی کے رکن اورملی زُم کنسلٹ کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر مسعود داہر اوراس پروگرام کی کوآرڈی نیٹر محترمہ امینہ سہیل شامل تھیں۔


alt
alt

عثمان امین الدین نے کہا کہ ہم وہ قوم ہیں جو دنیابھر میں دوسرے نمبر پر بڑے کوئلے کے ذخائر پر بیٹھے ہیں اورپھر بھی بدترین توانائی بحران کا سامنا کررہے ہیں۔صرف اس لیے کہ ہم مستقبل سے آنکھیں بند کیے ہوئے ایک کمزور منصوبہ بندی پر عمل پیراہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں توانائی کی ضروریات کا 25فی صد کوئلہ سے حاصل کیا جارہاہے جبکہ پوری دنیا میں 41فی صد بجلی کوئلہ سے پیدا کی جارہی ہے۔ ہمارے پاس کوئلہ کے ذخائر 184بلین میٹرک ٹن ہیں اوریہ ذخائر امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر بڑے ذخائر ہیں اس سب کے باوجود ہم کوئلہ سے ایک یونٹ بجلی بھی پیدا نہیں کررہے۔
کوئلہ کے معیار سے متعلق گردش کرنے والے خدشات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ جنوبی افریقہ پاکستان کی نسبت کئی درجہ کم معیار کا کوئلہ رکھنے کے باوجود اپنی توانائی کی 94فی صد ضروریات اسی سے پوری کررہاہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی اتنی ترقی یافتہ ہوچکی ہے کہ کسی بھی معیار کے کوئلے کو تدریجی عمل سے گزار کر اس قابل بنایا جاسکتاہے کہ بہت سے مقاصدکے لیے استعمال میں لایا جاسکے۔ یہاں مسئلہ کوئلہ کے کم تر معیار کا نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کے ایوانوں پر ایسے لوگ قابض ہیں جنہوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے پوری قوم کو یرغمال بنارکھاہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ پاکستان کے پاس توانائی کا کوئی سیکیورٹی پلان نہیں ہے اورپاکستان پلاننگ کمیشن یا ریاست کے کسی اورادارے کے پاس ایسا کوئی طریقہ کارنہیں ہے جس سے دنیامیں تیل کی قیمتوں سے متعلق منصوبہ بندی کی جاسکے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ۱۴۔۲۰۱۳ئتک تیل کی بین الاقوامی قیمتیں ۲۰۰امریکی ڈالر سے بڑھ جائیں گی جس سے تیل کی ملکی ضروریات پر غیر معمولی دباؤ آجائے گا اورکوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ اس کے لیے درکار اضافی رقم کہاں سے آئے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان حالات میں جبکہ قوم کو تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور گیس کی کمی کا سامناہے اوریہ صورت حال مستقبل قریب میں مزید شدید تر ہوتی نظر آرہی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان مسائل کا حل خود تلاش کرتے ہوئے اپنے ملکی وسائل کو بروئے کار لایا جائے اورنئے وسائل پیدا کیے جائیں جن میں سرفہرست کوئلہ کا استعمال ہے۔
تھرکول منصوبے کے لیے زیرِ زمین کوئلہ کو گیس میں منتقل کرنے کے لیے حال میں کی گئی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہمارے ہاں یہ منصوبہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے جس کی کامیابی کا امکان بہت کم ہے، امریکہ میں ۱۹۶۰ء کی دہائی سے شروع ہونے والے اس طرح کے منصوبے پر تجربات ابھی تک کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی میں۱۴ اہم نقائص سامنے آئے جن میں سے صرف چھ پر امریکی ماہرین قابو پاسکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئلہ کی دولت سے استفادہ کے لیے دنیا میں بہت سے دیگر آزمودہ طریقے کار اورٹیکنالوجیز بھی موجود ہیں جن پر غور کیا جانا بہت ضروری ہے۔
انہوں نے افریقہ میں ایندھن کے دوسرے بڑے ذریعے جیلی ایندھن (gel fuel)کا ذکر کیا جوکہ گنے کے ناکارہ شیرہ(راب) سے حاصل کیا جارہاہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ذریعہ پاکستان کے غریب عوام کی ضروریات پوری کرسکتاہے ۔ پاکستان میں گنے کی بہت اچھی فصل ہوتی ہے اورشوگر ملیں ضمنی پیداوار کی شکل میں یہ شیرہ کثیر مقدار میں پیدا کررہی ہیں۔

alt
alt
alt
alt

انہوں نے مزید کہا کہ کئی ممالک میں توانائی کے شعبے کے سرمایہ کار پاکستان سے زیادہ مشکل حالات میں کام کررہے ہیں۔ان ممالک میں سرمایہ کاری کی رغبت کی وجوہات میں وہاں کی پالیسیوں میں تسلسل اوروہاں کے حکمرانوں کاکاروبار کے ماحول کو مثبت رکھنے میں سہولیات فراہم کرنا ہے۔
سیمینار کے صدر مرزا حامد حسن نے کہاکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ کان کنی کے لیے جدید طریقہ کار کی مدد حاصل کی جائے اوراس سے حاصل ہونے والے کوئلہ کو بہت سی ضروریات پوری کرنے کے قابل بنایا جائے۔ انہوں نے کہاکہ ساری بحث کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے پر ہورہی ہے حالانکہ اس قدرتی ذریعے میں اس سے کہیں زیادہ ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
انہوں نے اس بات پر بھرپورتوجہ دلائی کہ کوئلے کو حاصل کرنے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کی بے انتہا ضرورت ہے اوریہ صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ ہم مضبوط پالیسیاں وضع کریں اوراس بات کو یقینی بنائیں کہ سرمایہ کاروں کے لیے بہت اچھا ماحول فراہم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ غیر ملکی سرمایہ کاری صرف قانون کی حکمرانی پر منحصر نہیں ہے بلکہ ان بے ڈھنگے اصول و ضوابط کی اصلاح اورڈانواں ڈول پالیسیوں میں استحکام لانے کی بھی ضرورت ہے جو کہ کان کنی اورقدرتی وسائل کوکارآمد بنانے کے لیے درکار بیرونی سرمایہ کاری میں رکاوٹ ہیں۔

مسعود داہر نے کوئلے کو محلول بنانے کی جدید ترین تکنیک پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’مستقبل کوئلے کو استعمال کرنے میں ہے‘۔انہوں نے کہاکہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ماضی میں ملک پر حکمران طبقوں نے کوئلے کے توانائی کے ذریعے کے طورپر استعمال کو نظر انداز کیا ہے۔اس کا بخوبی اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ پاکستان میں خام کوئلے کو قابل استعمال بنانے کے لیے کوئی پروسیسنگ یونٹ نہیں ہے اورہمیں یہ کوئلہ درآمد کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کے پاس کوئلے کی شکل میں آئندہ دو سوسال کے لیے تیل موجود ہے جو کہ جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے کوئلے کو محلول کی شکل دے کر حاصل کیا جاسکتاہے اور جو آج پوری دنیا میں تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہورہاہے۔

نوعیت: روداد سیمینار

تاریخ: ۱۴ جون ۲۰۱۲ء

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے