کشمیر سے متعلق آئی پی ایس ورکنگ گروپ کی طرف سے1949 میں دستخط شدہ کراچی معاہدے کی تجدید پر غور و خوض

کشمیر سے متعلق آئی پی ایس ورکنگ گروپ کی طرف سے1949 میں دستخط شدہ کراچی معاہدے کی تجدید پر غور و خوض

آئی پی ایس کشمیر ورکنگ گروپ (آئی پی ایس- ڈبلیو جی کے) کے ساتویں اجلاس کا آن لائن انعقاد 18  مئی 2020 کو ہوا، جس  میں اس بات پر غور کیا گیا کہ کراچی معاہدے کا موجودہ صورت حال کے مطابق مطالعہ  اور تجزیہ کیا جائے ۔یہ معاہدہ پاکستان، حکومت آزاد جمو ں و کشمیر ، کشمیریوں اور ۱۹۴۹ میں واحد کشمیری سیاسی جماعت اور مزاحمتی محاذ مسلم کانفرنس کے درمیان ہوا تھا۔ 

 kashmir-working-group

آئی پی ایس کشمیر ورکنگ گروپ (آئی پی ایس- ڈبلیو جی کے) کے ساتویں اجلاس کا آن لائن انعقاد 18  مئی 2020 کو ہوا، جس  میں اس بات پر غور کیا گیا کہ کراچی معاہدے کا موجودہ صورت حال کے مطابق مطالعہ  اور تجزیہ کیا جائے ۔یہ معاہدہ پاکستان، حکومت آزاد جمو ں و کشمیر ، کشمیریوں اور ۱۹۴۹ میں واحد کشمیری سیاسی جماعت اور مزاحمتی محاذ مسلم کانفرنس کے درمیان ہوا تھا۔

 اس اجلاس سے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد (IIUI) کے شعبہ شریعہ اور قانون کے ریسرچ اسکالر ڈاکٹر ادریس عباسی نے بطور مہمان خصوصی خطاب کیا ، جبکہ مرکزی مقرر بشیر خان صدوزئی  سابق ڈائریکٹر انفارمیشن کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) تھے جو  تاریخ کشمیر اور جدوجہد آزادی پر پانچ کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔

آئی پی ایس کے ایگزیکٹو صدر خالد رحمٰن کی زیر صدارت، آئی پی ایس کی ساتھی فرزانہ یعقوب ​​جموں و کشمیر کی  سابق وزیر اور سیکرٹری آئی پی ایس ڈبلیو جی کے نے اجلاس کی میزبانی کی۔ شرکاء میں غلام محمد صافی حریت رہنما ، بریگیڈئر (ر) سید نذیر مہمند سینئر آئی پی ایس ایسوسی ایٹ،  ایڈووکیٹ ناصر قادری  بین الاقوامی قانون کے ماہر، شکیل ترابی  چیف ایڈیٹر ساؤتھ ایشین براڈکاسٹنگ ایجنسی (سباح) ، سید محمد علی  سینئر ریسرچ فیلو آئی پی ایس  اور نوفل شاہ رخ   جی ایم آپریشنز آئی پی ایس شامل تھے۔

ڈاکٹر ادریس نے ’کراچی معاہدہ اور مسئلہ کشمیر: عصری مناسبت‘ کے عنوان سے اپنی کلیدی تقریر میں کراچی معاہدے کا پس منظر پیش کرتے ہوئے بتایا کہ سہ فریقی معاہدہ 30 اپریل 1949 کو پاکستان  اور  آزاد جموں و کشمیر (اے جے اینڈ کے) کی خود مختار حکومتوں کے مابین بین الاقوامی معاہدہ کے طور پر دستخط کیا گیا تھاجس میں گلگت بلتستان (جی بی) کی بھی نمائندگی شامل تھی  تاکہ ان تینوں اداروں کے مابین تعلقات کو قانونی طور پر دستاویز کیاجائے اور خصوصی طور پرسول انتظامیہ اور مالی امور چلانے کے ساتھ ساتھ ان میں حکمرانی کے کاموں کی تقسیم کو باضابطہ بنایا جائے۔

اسپیکر کی رائے یہ تھی کہ دہائیوں کے بعد سے اب تک بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے ،  اب معاہدے کے ساتھ ساتھ متفقہ طور پر پاکستان کے آئینی ڈھانچے میں بھی کچھ ترامیم کرنے اور نئے پروٹوکول لانے کی ضرورت ہے۔ اسپیکر نے کہا کہ جی بی حکومت سمیت تمام موجودہ اسٹیک ہولڈرز میں ایسے اقدامات سے کشمیر کی اخلاقی اتھارٹی کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی، خاص طور پر  اس وقت جب عالمی برادری کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا جائے۔

صدوزئی نے کراچی معاہدے کے بارے میں ادریس کے خیال کی تائید کی جبکہ  متعلقہ پلیٹ فارموں پر آزاد جموں و کشمیر اور جی بی کی نمائندگی میں اضافہ کرتے ہوئے معاہدے میں بہت ضروری ترامیم لانے پر زور دیا خاص طور پر ان معاملات پر جو بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر اٹھانے میں معاون ہیں۔

اجلاس کے اختتام پر ، خالد رحمان نے ادریس کی پیش کش کو بہت روشن خیال قرار دیا اور اس سلسلے میں کراچی معاہدہ جیسے دیگر متعلقہ دستاویزات کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے اس موضوع پر زیادہ سے زیادہ علمی اور فکری مکالمہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ،جس کا  حتمی مقصد  کشمیر پرہمارے موقف،  طرزحکمرانی اور قانونی ڈھانچے میں بہتری  لانا اور اسے مستحکم کرنا ہو۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے